اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> استاد کیلئے تالیاں بجانے اور کھڑے ہونے کا حکم  

سوال : استاد کیلئے تالیاں بجانے اور کھڑے ہونے کا حکم دریافت کیا گیا ہے۔  

خلاصہ فتویٰ: تالیاں بجانا شدید مکروہ ہے اسی طرح استاد کیلئے کھڑا ہونا۔

                                                                        الشیخ ابن باز مجلۃ الدعوۃ نمبر ١٣٢٥ 

تبصرہ:

ان دنوں معروف تالیاں بجانا عبادت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے تقرب الی اللہ مقصود ہے۔ بلکہ یہ پسندیدگی کے اظہار کا عرف اور طریقہ ہے اور اسے شرعاً ممنوع کرنے والی کوئی بات نہیں۔ اگر آنے والا تعظیم اور احترام کا مستحق ہے تو اس کے لئے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ مثال کے طور پرعادل امام ،والدین اور علماء۔

علمی رد:

قریش تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کیا کرتے تھے اور اُن کے خیال کے مطابق یہ عبادت تھی۔ اسلام میں اُن کے اس عمل کو قبول نہیں کیا چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَالْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً، ترجمہ: اور کعبہ کے پاس اُن کی نماز نہیں مگر سیٹیاں اور تالیاں بجانا )الأنفال  ٣٥(، مکاء سیٹی اور تصدیۃ تالیاں بجانا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر اللہ رب العزت کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی عبادت پر ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اور اُن جاہل صوفیوں کی مذمت کی جو رقص کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا: اس کی مذمت کی گئی ہے اور انہیں جیسے دوسرے عقلمند صوفی اس سے پاک ہیں۔ تالیاں اورسیٹیاں بجا کر عبادت کرنے والا اُن مشرکوں سے مشابہت رکھتا ہے جو خانہ کعبہ کے پاس کیا کرتے تھے۔ ختم: لیکن آج کل معروف تالیاں بجانا عبادت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مقصود اللہ رب العزت سے قربت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ عرف عام اور طریقہ و اسلوب ہے جسے لوگ بعض اعمال کی پسندیدگی کے اظہار کیلئے اپناتے ہیں۔ اورا س میں ایسی کوئی بات نہیں کہ اسے شرعاً منع کیا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مساجد میں منعقد کی جانے والی تقریبات میں ایسا نہ کیا جائے۔ تاکہ ظاہری طور پر مشرکین کے ساتھ شرکت اور مشابہت سے بچا جائے جو ان سے اللہ رب العزت کی قربت حاصل کرنے کیلئے مسجد میں واقع ہوتا ہے۔ جہاں تک آنے والے کی تعظیم اور احترام کیلئے کھڑے ہونے کا مسئلہ ہے تو اگر آنے والا شخص اس احترام کا مستحق ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسے عادل امام ، والدین اور علماء ۔ اسی طرح سفر سے آنے والوں ، سن رسیدہ افراد اور استاد وغیرہ جن کا کہ احترام کیا جانا چاہئے۔ احترام کے طور پر ان کے لئے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
بخاری اور مسلم شریف میں حدیث شریف ہے کہ نبی اکرم - صلى الله عليه وسلم- نے اُس وقت انصار سے فرمایا: جبکہ (حضرت) سعد بن معاذ گدھے پر سوار تشریف لائے اور زخمی تھے.
"قوموا لسيدكم'' اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ'۔

 یہ کھڑا ہونا محض ان کی اعانت کیلئے نہیں تھا بلکہ بنی الاشھل کے مرد کہا کرتے تھے کہ ہم دو صفوں میں اپنے پیروں پر ان کے لیے کھڑے ہوئے۔ ہم میں سے ہر شخص نے انہیں سلام کیا یہاں تک کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- تک یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اور (حضرت) طلحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) (حضرت ) کعب بن مالک (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کیلئے کھڑے ہوئے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا جیسا کہ امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی نے سند صحیح سے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کی یہ حدیث شریف روایت کی ہے: "ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا"، ترجمہ: "جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں سے عزت و شرف سے واقف نہیں ہوتا وہ ہم میں سے نہیں ہے".

 امام احمد نے بھی یہ حدیث شریف روایت کی ہے : "وہ شخص میری امت میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے عالموں کے حق کو نہیں جانتا"۔

امام ابو داؤد نے جید سند سے حدیث شریف روایت کی ہے کہ اللہ رب العزت کی عظمت میں سے یہ ہے کہ سن رسیدہ مسلمان اور قرآن کریم پر عمل کرنے،اس میں غلو نہ کرنے اور اس سے دور نہ رہنے والے اور انصاف کرنے والے حاکم کی عزت و تکریم کی جائے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ چار اسباب کی بناء پر کھڑا ہوا جاتا ہے :

اول ۔ ممنوع :ایسے شخص کیلئے کھڑا ہونا جو یہ چاہے کہ لوگ اُس کی تعظیم اور بڑائی کیلئے کھڑے ہوں۔ دوم۔ مکروہ: یہ اُس شخص کیلئے کھڑا ہونا ہے جو یہ تو نہیں چاہتا کہ کھڑے ہونے والے لوگ اُس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوں لیکن یہ اس بات کا خدشہ ہو کہ کہیں ممنوعہ باتوں کا سبب نہ بن جائے۔ اور جن میں جابروں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔        

سوم۔ جائز:یہ کسی ایسے شخص کی تعظیم و اکرام کیلئے کھڑا ہونا جسے اس کی خواہش نہ ہو اور وہ جابروں کی مشابہت سے بھی بچ سکتا ہو۔

چہارم۔ سنت:یہ کسی سفر سے آنے والے کیلئے خوشی کے طور پر اسے سلام کرنے ، اس کا خیر مقدم کرنے، کسی کو دوبارہ نعمت حاصل ہونے پر مبارک بادی دینے یا مصیبت آنے پر تعزیت کیلئے کھڑا ہونا۔ ([1])

اس سے اُن احادیث کی وضاحت ہوتی ہے جن میں کھڑے ہونے کو منع کیا گیا ہے۔ جیسے ابی داؤد اور ترمذی كى وہ حدیث حسن جس میں کہا گیا ہے کہ: "من أحب أن يتمثل له الرجِال قياما فليتبوأ مقعده من النار"، ترجمہ: "جس شخص نے اس بات کو پسند فرمایا کہ مرد اُس کیلئے کھڑے ہوں تو اُس نے آگ میں اپنا ٹھکانا بنالیا۔

 اسناد حسن سے ابی داؤد اور ابن ماجہ کی ابی امامہ الباہلی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کردہ وہ حدیث شریف ہے جس میں انہوں نے کہا : رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- عصا ٹیکتےہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپ - صلى الله عليه وسلم- کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ آپ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "لا تقوموا كما تقوم الأعاجم -يعظم بعضهم بعضا ترجمہ: ''کھڑے نہ ہو جس طرح کہ اعجمی ایک دوسرے کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے یں"([2])۔ واللہ اعلم.

                                                                           ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] غذا الالباب از سفارینی ج ١ ص ٢٧٥ اور اس کے بعد۔

[2] ابو داؤد فی الادب ٥٢٣٢ ، عراقی نے احادیث احیاء کی تخریج میں ابو العدیس کے بارے میں کہا یہ غیر معروف ہے، ابن حجر نے الفتح میں الطبری کے حوالے سے اسے ضعیف بتایا ہے۔