اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> تعلیم میں موسیقی اور آلات موسیقی استعمال کرنے کا حکم  

سوال : تعلیم میں موسیقی اور آلات موسیقی استعمال کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیاگیا۔  

خلاصہ فتویٰ: تعلیم اور اسلامی نغموں وغیرہ میں موسیقی اور ان کے علاوہ دوسرے مقاصد کیلئے لھوو لعب کے آلات استعمال کرنا جائز نہیں۔    

                                          اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء  ١٢/١٨٣۔١٨٦


تبصرہ: 

موسیقی کے ساتھ نغمے گانے کے حکم کے بارے میں فقہاء کی آرا ء مختلف ہیں جو حرام اور مباح کے درمیان ہیں۔ جنہوں نے اس کی اجازت دی ہے انہوں نے حسن کلام کی موجودگی اور نسواں سے ہم کلامی اور فضولیات سے پاک ہونے کی شرط لگائی ہے۔

علمی رد:

موسیقی کے ساتھ نغمے اور گانوں کے بارے میں فقہا کی آراء مختلف ہیں جو جائز اور ناجائز ہونے کے درمیان ہیں۔ ناجائز ہونے کی آرا ء زیادہ ہیں۔ تحقیق کار علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ گانے کے بارے میں جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں وہ یا تو صحیح نہیں ہیں اور جو صحیح ہیں ان سے استدلال صحیح طور پر نہیں کیا گیا۔ یعنی اُن سے صحیح مفہوم اخذ نہیں کیا گیا۔ یا پھر موسیقی کو حرام یا ناجائز قرار دینے والی کوئی قرآنی آیات نہیں ہیں۔

ابن العربی المالکی کا کہنا ہے کہ یہ احادیث جو گائیکی کے بارے میں ہم پیش کرتے ہیں ان میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو بیان اور منتقل کرنے والے اہل ثقہ نہیں ہیں جہاں تک کھیل کے طبلہ کا تعلق ہے جو دف کے مانند ہوتا ہے ،اسی طرح نکاح کی شہرت اور اسکا اعلان کرنے والے آلات ہیں۔ ان آلات کا استعمال شادی بیاہ میں جائز ہے بشرطیکہ کلام اچھا ہو اور یہ نسوانی گفت و شنید سے پاک ہو ۔ انہوں نے شادی میں بعینہ دف بجانے کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ انہوں نے ہر اس آلے کے استعمال کی اجازت دی ہے جس سے شادی کا اعلان ہوتا ہو اور لوگوں میں اسے مشہور کیا جاتا ہو۔ (حضرت) ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعلی عنہ) کے اس قول''یہ کیا ؟ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-کے گھر میں شیطانی بانسری؟

چنانچہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "دعهن''اے ابوبکر، انہیں چھوڑ دو (یعنی بجانے دو)آج یوم عید ہے '' کی بناء پر کہ شادی میں بانسری کا استعمال جائز ہے ۔ لیکن عورتوں کا مردوں کے سامنے آنا جانا اور بے پردگی جائز نہیں اور نہ ہی رفث (یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو ) جائز ہے۔ ([1])

اگر اس میں مذکورہ کوئی خلاف ورزی کی گئی تو یہ ابتدا ء ہی سے جائز نہیں اور یہ اپنے اصل حکم سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ ابی مالک الاشعری کی بخاری شریف میں وارد وہ حدیث شریف جس کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِى أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ"، ترجمہ:  ''یقینا میری اُمت میں ایسی اقوام ہونگی جو لباس کو طویل ، ریشم ، شراب اور موسیقی کو حلال کرلیگی۔ ([2])

 ابن حزم نے اس حدیث کو منقطع بتایا ہے اور امام بخاری اور اور صدقہ بن خالد کے درمیان اس کا صلہ نہیں۔ اور اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں اس میں جو بھی ہے وہ موضوع ہے۔ خدا کی قسم یہ تمام یا ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد سلسلہ ثقات سے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- تک پہنچتی تو ہم انہیں قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں کرتے۔([3])


ان بیانات سے واضح ہوا کہ موسیقی کے ساتھ گانے بجانے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ جس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہو توکوئی شخص کسی ایک مفتی کے قول کو لےتا ہے اور دوسرا شخص کسی دوسرے مفتی کے قول کوقبول کرتا ہے۔اور اس میں جس کسی کی رائے پسند آئے اسے قبول کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ نغمے گانے کے مسئلہ میں انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ یہ آداب اسلامی اور اس کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں۔ مثلاً کسی نغمے میں شراب کی تعریف کی جائے، اس کے پینے پلانے کی طرف رغبت دی جائے، تو ایسا گانا پیش کرنا اور اس کا سننا دونوں حرام ہے اور دین ہر چیز یہاں تک کہ عبادت میں بھی غلو اور حد سے بڑھنے نیز اصراف کے خلاف جنگ کرتا ہے تو کھیل کود میں اصراف اور وقت ضائع کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جب کہ وقت زندگی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز امور میں وقت کا اسراف کیا جائے تو ان میں واجبات کی ادائیگی کا وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے اور کسی نے یہ بات بالکل صحیح کہی ہے کہ میں نے کوئی اسراف نہیں دیکھا جس کے ساتھ ساتھ حق کا ضیاء نہ ہوتا ہو۔واللہ اعلم.    

                                                                                     ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] احکام قرآن از ابن عربی ٣/٥٢٧.    

[2] البخاری معلقا ٥٥٩٠.    
[3] المحلی از ابن حزم ٧/٥٦٥.