خلاصہ فتوی:
جواب دیا گیا کہا گریہ انعامات ،یا کسی عوض کے لۓ ہوں
تو جائز نہیں لیکن جب اسمیں بے پر دگی و عریا
نیت نہ ہو ،یا فرائض سے غافل نہ کرےاور عوض کے بغیر ہو
تو جائز ہيں۔
فتاوی اللجنہ الدائمہ 15/238-239
الشیخ سعید عبدالعظیم
www.alsalafway.com
تبصرہ:
کھیلوں کے مقابلے
اور انکا دیکھنا دراصل جائز ہے بشرطیہکہ تمام کھیلوں
میں مطلوبہ آداب کی حفاظت کے علاوہ کھیل میں حد سے
تجاوز اور فرائض سے غفلت نہ ہو۔
علمی رد:
یہ ایک واضح حقیقت
ہے کی وہ اشیاء جن میں کوئی ضرر نہ ہو اور انکی ممانعت
میں شرعی نص بھی وارد نہ ہوئی ہو تو وہ اپنی اصل حالت
جواز پر باقی رہتی ہیں ۔جسکی عمومی دلیل یہ ارشاد
باری تعالی ہے:
﴿هُوَ
الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً﴾،
ترجمہ:
وہ جس
نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لۓ بنایا۔
اور اللہ تعالی کا
فرمان ہے:
﴿وَسَخَّرَ
لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
جَمِيعًا﴾
ترجمہ:
"اور
اسنے تمہارے لۓ جو کچھـ آسمانوں میں ہے اور جو کچھـ
زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت)مسخر کر
دیا ہے"۔
اور
شرعی ذمہ داریاں بھی وسعت اور استطاعت کی حدود میں ہیں
اور معقول حد تک انسان کو زندگی كى اچھی چیزوں سے
لطف اندوز ہو نے اور جسم و روح کی تسکین سے محروم
نہیں کیا جاتا اور ورزشی کھیلوں (کا تعلق بھی) دلی
خوشی سے ہے اور ہر قوم ان میں سے اپنے لۓ مناسب (کھیل)کو
پسند کرتی ہے ، فٹ بال قدیم کھیلوں میں سے ہے اور کہا
جاتا ہے کہ یہ تقریبا 3 ہزارسال پہلے چین میں شروع ہوا
تھا اور اغریق کے زمانے میں یونان میں عام ہوا پھر اہل
روم نے اسے پایا ، انگلینڈ میں منتقل ہوا پھر (وہاں)
سےتقریبا تمام دنیا میں عام ہوگیا/چھا گیا۔خلاصہ کلام
یہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلے اور انکا دیکھنا دراصل جائز
ہے بشرطیہکہ تمام کھیلوں میں مطلوبہ آداب کی حفاظت کے
علاوہ کھیل میں حد سے تجاوز اور فرائض سے غفلت نہ ہو۔
عبداللہ فقیہ کی زیر نگرانی فتوی مرکز کا فتوی ہے کہ:
فٹ
بال اور دیگر کھیلوں کے مقابلوں میں کوئی شرعی ممانعت
نہیں بشرطیکہ یہ شرعی ممنوعات سے خالی ہوں ۔جیسے مردوں
كا عورتوں یا عوتوں کا مردوں کو دیکھنا یا فرض عین
جیسےنمازپنچگانہ، والدین سے حسن سلوک میں غفلت کرنا ،یا
کسی ایک ٹیم کی ایسی طرفداری کرنا جو دوسری ٹیم سے
دشمنی یا بغض تک پہنچا دے یا ایسے الفاظ کہنا جو کہ
شریعت اور آداب عامہ کے منافی ہوں۔([1])
ڈاکٹر انس ابو
شادی
[1]
ڈاکٹر عبداللہ فقیہ کی زیر نگرانی فتوی
مرکز۔فتوی نمبر 18809 تاریخ23- ربیع
الثانی1423۔