اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> چارٹر اکاؤنٹينٹ کے طور پر کام کرنے کا حکم  

سوال : چارٹر اکاؤنٹنٹ كےطور پر کام کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی  :  جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ اس میں گناہ اور ظلم میں تعاون ہے۔

فتاوی اللجنہ الدائمہ 15/20

تبصرہ:

اکاؤنٹنگ یا  جانچ پڑتال کرنا در حقیقت جائز ہے جب تک کہ وہ مباح سر گرمیوں سے متعلق ہو۔اور حرام سر گرمیوں میں اکا ؤنٹنگ کا کام جائز نہیں سواۓ ضروری و اضطراری حالات میں جو کہ ممنوعات کو مباح کردیتے ہیں۔

علمی رد:

چنانچہ  اکاؤنٹنگ کے شعبے میں کام كرنا جائز ہے کیونکہ اکاؤنٹنٹ ایک فنی کام انجام دیتا ہےجسکی بنیاد ایک مباح کام پر ہے، اور اشیاء میں اصل حکم مباح ہے اور شرعی دلیل کے بغیر ممانعت نہیں،مگر وہ کمپنییاں یا ادارے جو براہ راست حرام اعمال انجام ديتے ہیں جیسے شراب یا خنزیر کی تجارت وغیرہ تو ان میں ملازمت جائز نہیں مگر شریعت كے مقرر کردہ ضوابط کے مطابق شدید حاجت کی صورت میں بقدر ضرورت جائز ہے۔اور (اسےچاہۓ) کہ وہ اس (عذر) کو زائل کرنے کی کوشش کرے ۔اور اسکی نیت یہ ہو کہ جیسے ہی اسے متبادل موقع میسر آیا تو وہ اس کام کو ترک کر دیگا۔

جہاں تک تعلق ہے ان اعمال کا جن میں حلال اور حرام دونوں ملے ہوں اڈیٹر اسکے جانچ پڑتال کا ذمہ دار ہو  تو ضرورتا رخصت کی وجہ سے جائز ہے۔ اور اسے چاہۓ اہ وہ اپنی تنخواہ میں سے حرام کام کی مقدار کے مطابق مال نکال دے  چونکہ اس کام میں شبہ باقی ہے لہذا ملازم کو چاہۓ کہ وہ اسکے ساتھـ ساتھـ ایسے کام کی تلاش جاری رکھے جس میں شبہ نہ ہو۔

اکاؤنٹنگ میں مشترک ملازم (اکاؤنٹینٹ) کے کام میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ اسکا کردار صرف مالی فیصلوں کی اڈیٹنگ تک محدود ہوتا ہے اور وہ براہ راست شریک نہیں ہوتا کیونکہ وہ صرف امر واقع کا ناقل ہے۔ اور اس سے کوئی مستثنی نہیں سواۓ ان کمپنیوں کے جنکی سرگرمیوں کا دائرہ کار بنیادی طور پر محرمات پر مشتمل ہے۔

 

عبداللہ فقیہ کی زیر نگرانی فتوی مرکزكا فتوى ہے:

اکاؤنٹنگ کا علم لوگوں کے دینی اور دنیاوی امور میں مفید اور اہم ہے ۔دنیوی اعتبار سے تو بہت واضح ہے۔

 جہاں تک تعلق ہے دینی امور کا تو اسکے لۓ قریب ترین مثال یہ ہے کہ میراث کو سمجھنے کے لۓ اس قسم کے علوم کی ضرورت ہے۔

جب یہ ثابت ہو گیا تو اب مسلمانوں کیلۓ ضروری ہے کہ اس علم میں ماہر ہوں اور اس میں اعلی درجات حاصل کریں ۔چنانچہ جب اسے (اکاؤنٹنگ کا علم) حاصل کرلیں تو پھر اسے شرعی طور پر مباح چیزوں میں استعمال کریں اور شریعت کی جانب سے مباح کردہ (اعمال) کا میدان بہت وسیع ہے۔

جبکہ سود كے حساب وکتاب میں کام کرنا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی صحيح حديث مباركہ ہے: أنه "لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدِيهِ وَكَاتِبَهُ" اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے، ترجمہ: "رسول کریم صلی علیہ وسلم نے سود کھانے والے،کھلانے والے اور اسکے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے"۔ اللہ اعلم([1])

            ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] مرکذ فتوی زیر نگرانی ڈاکٹر عبداللہ فقیہ فتوی نمبر 57923 –تاریخ ذیقعدہ 1425.