سوال :
چھوٹے پائجامے میں کھیل کی مشق کرنے سے متعلق سوال کیا گیا.
خلاصہ فتوی:
جواب دیا گیاکہ کھیل میں بھی ران کو بے ستررکھنا
جائزنہیں.
الشیخ ابن
عثیمین فتاوى إسلاميہ 4/431
تبصرہ:
امام مالک رضی
اللہ عنہ کے نزدیک ران ستر میں شامل نہیں ہے،لہذا اس
رائے کی بنیاد پر چھوٹے پائجامے میں کھیل کی مشق درست
ہے.
علمی رد:
ہر نماز کے وقت
اور ستر پرنظر پڑنے کے وقت ستر کو چھپانا مرد وعورت
دونوں پر فرض ہے،لیکن مرد وخواتین ہر دو کے سترکی
پیمائش میں اختلاف ہے،چنانچہ چہرہ اور ہاتھ کو چھوڑ کر
عورت کا پورا بدن ستر میں شامل ہے،اللہ تعالی ارشاد
فرماتا ہے:
﴿وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾
(النور ٣١)، ترجمہ:
"اور
اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی
حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے".
جہاں تک مرد کے
ستر کا مسئلہ ہے تو واضح رہے کہ علمائے کرام کا اس بات
پر اتفاق ہے کہ دونوں شرمگاہ عورت ہیں انہیں دیکھنا
جائز نہیں،اوران کو چھپائے بغیر نماز باطل ہے، لیکن
دونوں شرمگاہ کے علاوہ جیسے ران ، ناف اور گھٹنا تو ان
کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے، جمہور
فقہائے کرام کی رائے میں یہ اعضاء ستر میں شامل ہیں
اور ان کا چھپانا فرض ہے،امام احمد ،حاکم اور امام
بخاری نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا معمر کے پاس سے گزر ہواجبکہ ان
کی دونوں ران بے ستر تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
حکم فرمایا: "غطِّ فخذيك فإن الفخذين عورة" اپنی دونوں
رانوں کو چھپاؤ کیونکہ دونوں ران ستر ہیں. اورایک
دوسرے شخص کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی
حکم فرمایا جیساکہ امام مالک کی روایت میں ہے اور امام
ترمذی نے اسے حسن قراردیاہے.
اسی وجہ سے
جمہور فقہائے کرام نے شورٹس میں نماز کو باطل قرار دیا
ہے جس میں ران کھلے ہوںاس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ
چھوٹے پائجاموں میں کھیل کی مشق کرتے ہیں ان لباسوں
میں ان کی نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور جمہور کے نزدیک
یہ ورزش مکمل ستر پوشی کرنے والے لباس میں ہی ہونی
چاہئے، لیکن ضرورت اور مجبوری کے پیش نظر ایسے لوگ ان
کی رائے اختیار کرسکتے ہیں جو ران کے ستر کے قائل نہیں
ہیں کیونکہ امام بخاری کی روایت میں ہے حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے خیبر کے روزاپنی ران مبارک کو کھولا یہاں تک
کہ میں ان کی ران مبارک کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں اور
امام مالک رضی اللہ عنہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے.
والله أعلم.([1])
ڈاكٹر انس ابو شادی
[1]فتاویٰ
دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر(١٧٣)المفتی
:فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر، مئی ١٩٩٧.