اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> شطرنج کھیلنے کا حكم  

سوال : شطرنج کھیلنے کے بارے میں سوال كيا گيا.  

خلاصہ فتوی:   شطرنج بازی کی ممانعت کا فتوی دیا گیا.

                           الشیخ ابن عثیمین اسئلۃ مہمۃ(اہم سوالات)ص١٨

تبصرہ

شافعی فقہاء کے نزدیک اگرتین شرطیں پائی جاتی ہیں تو شطرنج حرام نہیں ہے ، جوا پر مشتمل نہ ہو ، نماز سے غافل نہ کرے، کھیلتے وقت بدگوئی سے زبان پاک رہے.

علمی رد:

اگر شطرنج میں جوا یا اور کوئی حرام امر شامل ہو جیسے شراب نوشی، بے پردگی،نامحرم کے ساتھ تنہائی،گالی گلوج،فرائض میں کوتاہی، یا کسی قسم کا نقصان تو اس کا کھیلنا ناجائز ہے.

اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ شطرنج حرام نہیں ہے، انہیں میں شافعی فقہائے کرام بھی شامل ہیں، امام شافعی فرماتے ہیں: یہ ایک بے فائدہ کام کے مشابہ ہے ،اورمجھے ناپسند ہے لیکن اس کی حرمت مجھ پر اچھی طرح واضح نہیں ہوسکی ہے، اور امام نووی فرماتے ہیں جہاں تک شطرنج کا معاملہ ہے تو اس بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ مکروہ ہے حرام نہیں،لیکن علمائے کرام کی ایک جماعت کا مذہب اس کی حرمت کے حق میں ہے،لیکن اس بارے میں کوئی قابل حجت حدیث نہیں پائی جاتی ہے جس میں اس کی حرمت کی صراحت ہو،([1])اور جس کی حرمت پر شریعت میں کوئی نص نہ ہو تو وہ اپنی جگہ جائز ہے، بشرطیکہ نقصان دہ نہ ہو یا نقصان دہ کام میںاس کا استعمال نہ ہو،لہذا اگرکوئی جائز فعل کسی حرام امر کا سبب بنے تو وہ اس کی وجہ سے حرام ہوگا نہ کہ بذات خود،مثال کے طور پر اگر شطرنج کھیلنے والااللہ تعالی کے فرائض یا اپنے اہل وعیال کے حقوق کو ضائع کر بیٹھے تو حرام ہوجائے گا. واللہ أعلم.([2] )

یہاں یہ اعتراض بھی بے جا ہے کہ اس میں مجسمے ہوتے ہیں لہذا حرام ہے،کیونکہ اس کا جوا ب یہ دیا گیاہے کہ یہ پتھر کے مجسمے مکمل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ناقص ہوتے ہیںدیکھنے والا ان جانوروں کے خدوخال علامات واجسام میں امتیاز نہیں کرپاتاہے کیونکہ وہ مٹے مٹے سے ہوتے ہیں اور مکمل بھی نہیں ہوتے، اور جب صورت حال یوں ہے تو حرام ہونے کی کوئی بات نہیں([3]).

اور یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالی کی یاد سے غفلت ہوجاتی ہے،تو یاد رہنا چاہئے کہ دنیا کے تمام جائز وناجائز امور کایہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالی کی یاد سے غافل کردیتے ہیں، لہذا جو شخص ان چیزوں میں منہمک ہوکراپنی ذمہ داریوں کو پامال کردے تو اس پر حرام ہے،اور اس کو شراب پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ شراب اللہ تعالی کی یاد سے بایں طور غافل کردیتی ہے کہ عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا،اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ لوگوں کی نماز میں امامت کی تو انہوں نے اس طرح قراء ت کردی''قل یا ایھا الکافرون، اعبد ماتعبدون، اناعابد ماعبدتم''([4]) یعنی آپ فرما دیجئے اے کافرو!جسکی تم عبادت کرتے ہو اسی کی میں بھی عبادت کرتاہوں،جسکی تم نے عبادت کی اسی کی میں بھی عبادت کر رہا ہوں.[5] لیکن شطرنج میں عقل زائل نہیں ہوتی ہے لہذا اگر ارادہ پختہ ہو تو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہیں کرسکتی ہے.

اور یہاں اس اعتراض کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ اس سے دشمنی اور عداوت پیدا ہوتی ہے، کیونکہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جب معتدل لوگ کھیلتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا ہے،اور شرپسند لوگوں کا حوالہ درست نہیں کیونکہ یہ کھیلیں یا نہ کھیلیں بہرحال عداوت ودشمنی میں پڑتے ہیں، اسی طرح شراب سے عداوت و دشمنی اس طورپر بھی پیدا ہوتی ہے کہ شراب نشاط وکیف،دلیری وہمت کے جذبہ کو ہوادیتی ہے اور دشمنوں کی گرفت وانتقام کی خواہش میں اضافہ کردیتی ہے، چنانچہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ شراب کی کیفیت کے متعلق فرماتے ہیں: ہم اسے پیتے ہیں تو وہ ہمیں بادشاہ بنا کر رکھـ دیتی ہے، اور شیر بنا کرچھوڑ تی ہے ايسا کہ جنگ سے ہمیں کوئی چیز باز نہیں رکھـ سکتی ہے. والله أعلم.

                                                           ڈاكٹرانس ابو شادى


[1]  الترغیب والترھیب٤/٤.

[2] فضیلۃ الشیخ محمدرشیدرضا ، فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر(٧١)المفتی :فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر، مئی ١٩٩٧.

[3]۔شرح فتح القدیر١/٤١٦، المبسوط٢٤/٤٧:اور مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے بیان کیا ہے:حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیتل کے مجسموں کو فروخت کئے جانے کےلئے سرزمین ہندوستان کو روانہ کیا تھا،کہا گیا ہے کہ یہ مجسمے میں غنیمت میں ہاتھ آئے تھے،چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیںسرزمین ہندوستان میں بیچنے کا حکم فرمایا تاکہ ان کی قیمت سے جنگجو سپاہیوں کے لئے اوزار وہتھیار فراہم کئے جاسکے، اس روایت کی توجیہ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ وہ مجسمے اتنے چھوٹے چھوٹے تھے کہ دور سے دیکھنے والے کو نظر نہیں آتے تھے، اور اس طرح کے مجسمے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میںحضرت دانیال علیہ السلام کی انگوٹھی دستیاب ہوئی جس پر دو بیلوں کے درمیان ایک آدمی کی تصویر تھی اور وہ دونوں اس آدمی کو چاٹ رہے تھے، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر دومکھیوں کی تصویریں تھیں اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ چھوٹے کو رکھنے میں حرج نہیں ہے. اور فتاوی سبکی میں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ملک شام سے مجسموں پر مشتمل ایک چاندی کا عود دان آیا تو انہوں نے اسے مسجد نبوی شریف کے مؤذنین کے دادا حضرت سعد کے حوالے کردیا ، اور فرمایا جمعہ اور رمضان شریف میں اس میں عود جلاؤ، بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سعد ہر جمعہ کو اس میں عود جلایا جاتا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا جاتا تھا.

[4] احکام القرآن ابن العربی:٢/١٦٥