خلاصہ فتوی:
ان کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا گیا، کیونکہ اللہ تعالی
کی یاد اور نماز سے غافل کرتے ہیں، اور عموماً دیرینہ
عداوت ودشمنی کا سبب بنتے ہیں.
فتاوی اللجنۃ
الدائمۃ١٥/٢٣٨
تبصرہ:
ان کھیلوں کی
حرمت پر کوئی نص نہیں ہے، اور ہر وہ چیز جس کی حرمت پر
شریعت میں کوئی نص نہ ہو،تو وہ اپنی جگہ جائز ہے،
بشرطیکہ نقصان دہ یا نقصان دہ امور میں اس کا استعمال
نہ ہو.
علمی رد:
ان میں سے کوئی
کھیل بھی اگر جوا پر مشتمل ہو تو درست نہیں ہے کیونکہ
اس صورت میں کسی نہ کسی کوایک فریق کے نقصان پر دوسرے
کو نفع ملتا ہے، اسی طرح اگر ان کھیلوں کے ساتھ کسی
حرام چیز کی آمیزش بھی ہو توبھی حرام ہیں جیسےشراب
نوشی کا ساتھ ہونا یا گالی گلوج اوربدگوئی کا پایا
جانا، یا کسی فریضےکا فوت ہونا یا کسی بھی قسم كے
نقصان کاپایاجانا.
شافعی فقہائے
کرام کا ان کھیلوں کے بارے میںجن کے متعلق کوئی تصریح
نہیں ہے ایک عام قاعدہ ہے ، کہ جس میں حساب یا
غوروفکرکا مادہ ہو جن سے ذہن تیز ہوتاہے تو جائز ہے
لیکن نرد اور بے فائدہ کھیل درست نہیں([1]).
اس قاعدہ کی
روشنی میں شطرنج اور نرد قیاس کی اصل ٹھہرے لہذا ان
کھیلوں میں سے جو نرد کے مشابہ ہیں اور قسمت ونصیب پر
مبنی ہیں ممنوع ہیںاور زمانہء جاہلیت کے پانسے کی طرح
ہیں،اور جو کھیلنے والے کی مہارت اور چالاکی پر مبنی
ہیں جیسے شطرنج تووہ جائز ہیں.
لیکن ظاہری
حضرات کا قاعدہ اس سے قدرے مختلف ہے،چنانچہ ان کے
نزدیک اصل یہ ہےکہ جس میں حرمت کی کوئی تصریح نہیں ہے
وہ اپنی جگہ جائز ہے. اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿'خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً﴾
(البقرۃ ٢٩)،
ترجمہ:
"سب
کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا، اوراللہ
تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَقَدْ
فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ
﴾
(الانعام١١٩)،
ترجمہ:
"حالانکہ اس نے تمہارے لئے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً
بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں".
لہذا اگر ان میں
سے کسی چیزکی حرمت پرکوئی نص موجود نہ ہو تو وہ جائز
ہے اور یہی مذہب شیخ محمد رشید رضا کا ہے چنانچہ ان کے
نزدیک ان کھیلوں میں سے صرف وہی ناجائز ہے جو ضرررساں
ہو،اور کھیلوں کے متعلق ان کا قاعدہ یہ ہے کہ کھیلوں
میں سے جو حرام ہیں ان کی حرمت کی علت یہ ہے کہ ان میں
نقصان ہے خواہ یہ نقصان دین سے متعلق ہو یا نفس سے یا
عقل سے یا عزت وآبرو یا مال سے متعلق ہولہذا جس میں
نقصان بھی نہیں ہے اور اس کی حرمت پر کوئی نص بھی
موجود نہیں ہے تو وہ حرام نہیں.
اسی وجہ سے بعض
شافعی حضرات کا مذہب یہ ہے.چنانچہ تفریحی کام یا
کھیلوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ :اگر مال نقصان سے
دور ہو، اور زبان بدگوئی سے پاک رہے اور نماز نسیان سے
محفوظ رہے، تو ایسا کام درحقیقت دوستوں کے ساتھ دل لگی
کا سامان ہے اور حرام ہونے کا اس میں کوئی سوال نہیں([2])،
بہرحال اس کے باوجود کھیل میں منہمک ہوجانا اور حد
اعتدال سے تجاوز کرجانا کراہت سے خالی نہیں ہے.
جہاں
تک ان کھیلوں میں مجسمے کی موجودگی سے متعلق سوال ہے
یا یہ کھیل اللہ تعالی کی یاد سے غافل کرتے ہیں، یا
دشمنی اور عداوت پیدا کرتے ہیں تو ان کا جواب شطرنج سے
متعلق سابقہ فتوے میں گزرچکا ہے وہاں ملاحظہ فرمالیں
. اور اللہ تعالی بہتر جاننے والا ہے.
بہرحال اگر یہ کھیل اس قسم کے محرمات سے پاک ہوں تو
ممنوع نہیں ہیں لیکن بچوں کو وقت پر نماز کی پابندی کی
تاکید کرنا اور ان کھیلوں کے ممکنہ نقصانات سے با خبر
رکھنا ضروری ہے.
جیسے
وہ کھیل جن میں نیک اہل زمین اور آسمان کے برے مخلوقات
کے درمیان جنگ وجدال کی عکاسی کی جاتی ہے اور ان میں
ایسے افکار کی ترجمانی کی جاتی ہے جن سے اللہ تعالی کو
مورد الزام ٹھہرایا جاتاہے، اورمعززفرشتوں کی شان میں
گستاخی كي جاتی ہے.
اسی طرح وہ کھیل جو صلیب یا کفر کے تشخص کی تعظیم
توقیر کی تلقین مشتمل ہوتی ہے.
نیز وہ کھیل جن میں جادو کی حقانیت کی نمائندگی ہوتی
ہے،اور جادو گروں کی عظمت شان دکھائی جاتی .
اسی طرح وہ کھیل
جو اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت پر مبنی ہیں، یا
مسلمانوں کی توہین اور غیر کی تعظیم پر مبنی ہوں.
نیز وہ کھیل جو
جوا یا شرط پر مبنی ہوں.
یا جسمانی ضرر
پر مشتمل ہوں یا جن سے آنکھـ یا اعصاب متأثر ہوں.
یا جن سے شدت پسندی یا جرم پروری یا قتل وغارت کو ہوا
ملتی ہو.
یا بچے کی طبیعت میں واقعیت پسندی کی بجائے اوہام
وخیالات اور ناممکنات کی دنیا میں جینے کا مزاج پیدا
کیا جائے جیسے موت کے بعد پھر سے اسی دنیا میں واپس
ہونے کا شوق پیدا کرنا، یا ایسی طاقت کی نمائش کرنا جو
درحقیقت اس وجود میں ممکن نہیں، یا فضائی کائنات کی
ایسی عکاسی کرنا وغیرہ وغیرہ.
واضح رہے کہ یہ
نقصانات ان کھیلوں کے شرعی جواز کے درمیان ضرور رکاوٹ
ہیں، الا یہ کہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو
بچوں کی مصلحت کے موافق ہو، جیسے انہیں راہ راست کی
طرف رہنمائی کرتے رہنا اور اگر ضرورت پڑے تو ان کھیلوں
کو مکمل طور پرموقوف کردینا ،اور تمام تر صورتوں میں
ان کھیلوں میں ہار جیت کی ہرگز اجازت نہ دی جائے،
کیونکہ اس صورت میں کسی بھی طرح جائز نہیں ہے اگر چہ
وہ اپنی جگہ جائز بھی رہاہوتو شرط کی وجہ سے حرام
ہوگیا.
والله أعلم.([3])
ڈاكٹر انس ابو شادی
[1]
اسنی المطالب٤/٣٤٤ الفتاوی الفقہیۃ الکبری ابن
حجر الھیتمی ٤/٣٥٧.
[3]
ماخوذ از کتاب فتاوی الاسلام سوال وجواب،
الشیخ محمدصالح المنجدج١ ...ص ٣٠٠٨ سوال نمبر
٢٨٩٨، بحوالہ المسابقات واحکامھا فی الشریعۃ
الاسلامیۃ تالیف ڈ/سعد الششری.