اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> تعلیم وتربیت کی خاطر جھوٹے قصے تیار کرنے کا حكم  

سوال : تعلیم وتربیت کی خاطر جھوٹے قصے لکھنے کے متعلق سوال کیا گیا.  

خلاصہ فتوی: تعلیم وتربیت کی خاطر جھوٹے قصے لکھنے کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا گیا.                            

فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ١٢/١٨٧
                                    الشیخ سعید عبد العظیم
 www.alsalafway.com
 

تبصرہ:

ہر وہ پسندیدہ مقصد جسکا حصول بغیر جھوٹ کے ناممکن ہو تو اس صورت میں جھوٹ جائز ہے ،بشرطیکہ مقصد بھی جائز ہو،اور اگر مقصد واجب کے درجے میں ہو تو جھوٹ بھی واجب ہے.

علمی رد:

دراصل بات مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے ،چنانچہ ہر وہ پاکیزہ مقصد جسکا حصول سچ اور جھوٹ دونوں طریقوں سے ہوسکتا ہو تو اس صورت میں جھوٹ حرام ہے،لیکن اگر اس کا حصول صرف جھوٹ کے ذریعہ ہی ممکن ہو سچ کے ذریعہ ناممکن ہو تو اس صورت میں جھوٹ جائز ہے،بشرطیکہ وہ مقصد بھی پاکیزہ ہوبلکہ اگر مقصد ضروریات میں سے ہو تو جھوٹ واجب ہے.

اس پر حدیث صحیح کی دلیل شاہد ہے کہ مصلحت کی خاطر جھوٹ درست ہے لیکن کسی کونقصان پہچانے کے لئے درست نہیں، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط سے روایت کی ہے بیان کیاہے: میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنی''وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرتا ہے،کیونکہ وہ خیر کو فروغ دیتا ہے یا بھلی بات ہی کہتا ہے''اور ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی پایا جاتا ہے وہ بیان کرتی ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی باتوں میں سے کسی بھی بات كي اجازت دیتے نہیں سنی ہے سوائے تین امور کے، یعنی جنگ، لوگوں کے درمیان صلح، شوہر کا اپنی بیوی کے لئے ، بیوی کا اپنے شوہر کے لئے. یہاں بیوی شوہر کے درمیان جھوٹ کا مطلب وہ باہمی پیار ومحبت کی باتيں ہيں جن سے خوشگوارزندگی پر مدد ملتی ہے اس پر بہت سارے دلائل موجود ہیں، لیکن ایسے امور میں جھوٹ درست نہیں جس سے ازدواجی زندگی متأثر ہوتی ہے.

واضح رہے کہ بعض علمائے کرام نے صرف اسی حد تک جھوٹ کو جائز قرار دیا ہے جتنے کے بارے میںحدیث پاک میں صراحت ہے لیکن محققین نے ہر اس چیزمیں جھوٹ کو جائز قرار دیا ہے جس میں مصلحت ہو اور کسی کا نقصان نہ ہو، اور اسی نوعیت کی وہ جھوٹ ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے ساتھ کیاجن کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی چنانچہ وہ ان کی کیفیت دریافت کرنے کے لئے کئی دنوں تک ان کے ساتھ رہے اور یہ بتایا کہ ان کے والد ان پر برہم ہیں.([1])

خلاصہء کلام یہ ہے کہ جائز جھوٹ میں صرف وہی شامل ہے جس سے کوئی نقصان نہ ہو بلکہ پاکیزہ مفاد برآئے، یاد رہے یہ جھوٹ جائزتو ہے لیکن نہایت ہی محدود دائرے میں اس کا استعمال ہونا چاہئے، کیونکہ اس سے لوگوں کو نقصان پہونچتا ہے اگرچہ وہ نقصان جھوٹ بولنے والے کے نقطہء نظر سے مختصر ہی کیوں نہ ہو ،بہت ممکن ہے کہ وہی نقصان اس شخص کے لئے جس کے حق میں جھوٹ کہا گیا ہے بڑا نقصان ہو.

اور بچوں کے قصے ایسی شخصیات کے واقعات پر مشتمل ہوتے جو واقعتاً پیش آئے ہیں، اور کبھی کبھی خیالی قصے بھی ہوتے جن کا تعلق ماضی ، حاضر ، یا مستقبل سے جوڑ دیا جاتا ہے، اور اس قسم کا اسلوب درحقیقت تعلیمی اور تفریحی اسلوب ہے اور اگر شکل ومضمون راست بازی پر مشتمل ہو اور پاکیزہ مقصد پیش نظر رہے تو جواز میں خبر صادق کی طرح ہے. اور اگر یہ شخصیات خیالی ہوں جیساکہ عموماً ان قصوں میں ہوتاہے جن سے غیر متعین شخص کا رول مراد ہوتا ہے، اور کبھی کبھی ایسے قصے جانوروں کی زبان پر ترتیب دے جاتے ہیں جیساکہ ''کلیلۃ ودمنۃ '' میں ہوا ہے، بہرحال اگر مقصد درست ہو اور مضمون میں کوئی ممنوع چیز شامل نہ ہو، اور اس کے سیکھنے میں کسی فریضے کی ادائیگی کا ضیاع نہ ہو اور نہ ہی اور کوئی جسمانی ،یا عقلی، یا مالی ،یا اخلاقی ضرر ہواور تمام تر نقصانات سے پاک ہو تو جائز ہے.([2])

یادرہے کہ باریکیوں پر مشتمل یہ قیود مقبول ومردود قصوں کے درمیان امتیاز کے لئے از حد ضروری ہیں، ان میں سے کسی بھی شرط کی خلاف ورزی اس کی ممانعت کے لئے کافی ہے، اور کمی بیشی کے اعتبار سے جس قدر خلاف ورزی ہوگی اسی قدر حرمت وکراہت کے احکام مرتب ہونگے،لہذا اگر کسی قابل تعظیم شخصیت پر کیچڑ اچھالنا مقصود ہو ،یا دین واخلاق کے منافی امور کی طرف دعوت دی جائے، یا حرام مضمون پر مشتمل ہو جیسے حدیث نبوی شریف کی طرف جھوٹی بات کی نسبت، یا ناقابل برداشت فتنے یا ضرر کا اندیشہ ہو ان تمام صورتوں میں جھوٹ درست نہیں. والله أعلم.([3])

                                                      ڈاكٹر انس ابو شادی


[1] امام احمد نے قابل قبول سند سے اس کی روایت کی ہے ،الترغیب والترہیب ج٣/ص٢١٩.

[2] اور رد المحتار میں مذکور ہے:''حدثوا عن بنی اسرائیل '' یعنی بنی اسرائیل سے بیان کرو، والی حدیث سے غیر یقینی جھوٹ پر مشتمل عجیب وغریب قصوں کے سننے کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن صرف دل بہلانے کی حد تک نہ کہ دلیل کے طور پر، بلکہ یقینی طور پر آدمیوں کے یاجانوروں کے جھوٹے قصے بھی مثال کے طور پر، یا نصیحت کی خاطریا شجاعت کی تعليم کے لئے بیان کرنا درست ہے، ابن حجر نے اسے ذکر کیاہے، ( ابن حجر کا یہ کہنا ،: کہ مثال بیان کرنے کی خاطر جائز ہے الخ. اس کی مثال میں مقامات حریری کو پیش کیاجاسکتاہے کیونکہ بظاہر حارث بن ھمام اور سروجی کے قصے جو اس میں مذکور ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انہوں نے اس عجیب وغریب اسلوب میں بیان کیاہے جو مطالعے کرنے والے پر مخفی نہیں ہے. رد المحتار ٦/٤٠٥.

[3] فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر(١٣)(٦٥)(١١٦)المفتی :فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر، مئی ١٩٩٧.