اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> اللہ کی راہ ميں جہاد کے مقاصد    

سوال : اللہ تعالی کے راستے ميں جہاد کے مقاصد کے بارے ميں سوال کيا گيا؟  

خلاصہ فتوی: تبليغ اور دعوت کے بعد کفار کے خلاف جہاد کرنا واجب ہو جاتا ہے، يہاں تک کہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کريں، اور حضرت محمد ـ  صلی اللہ عليہ وسلم ـ کی رسالت پر ايمان لے آئيں يا جزيہ اداکريں.

شيخ ابن باز: رسالۂ فضل الجھاد و المجاھدين 12 / 15

تبصرہ:

جہاد کا مقصد دعوت اسلام ہے ، اور اگر لوگوں کو اسلام کی طرف بغير لڑائی کے بلانا ممكن ہو تو جہاد كو اختيار نہ كيا جائے.

علمی رد:

جہاد فی سبيل اللہ شریعت ميں ايک اصطلاح ہےجسکا مترادف اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے اور اسلام کا پيغام پہنچانے کيلئے جنگ کرنا ہے. اسلام ميں جہاد فرض كفايہ ہے ـ اور اس فريضہ كو مسلم حكمران انجام د ے ديتا ہے  نہ كہ افراد اور جماعتيںـ مگر مسلم ملک پر جارحيت كى صورت  ميں ہر صاحب استطاعت پرجہاد فرض عين ہو تا ہے.اور جہاد كا مقصد لوگوں كو اسلام ميں داخل ہونے پر مجبور كرنا نہيں. جيسا كہ ارشاد بارى ہے: ﴿لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ(البقرة 256)، ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے.

 

 بلكہ جہاد كا مقصد تو صرف لوگوں كو دعوت اسلام دينا ہے انہيں اس پر مجبور كرنا نہيں . اگر پرأمن طريقے سے لوگوں كو دعت اسلام دينا ممكن ہو تو لوگوں جبرا مسلمان كرنے كے لئےجنگ كى ضرورت نہيں.

مسلمان پر واجب ہے كہ وه اپنى استطاعت كے مطابق  نيكى كا حكم دے اور برائى سے منع كرے اور كسى بهى آدمى خواه وه مسلم ہو يا غير مسلم كے ناحق قتل كى مذمت كرے كينكہ انسانى جان كا احترام اسلام كا اعلى مقصد ہے.

 نبى كريم ـ صلى الله عليه وسلم ـ نے فرمايا: «مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لاَ يُحَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ بِمِلْءِ كَفِّهِ مِنْ دَمٍ أَهْرَاقَهُ فَلْيَفْعَلْ» (صحيح بخاري 7152 ترجمہ: جو شخص يہ قدرت ركهتا ہو كہ اس كے ہتهيلى بهر خون بہانے كى وجہ سے، اسكے اور جنت كے درميان كوئى چيز حائل نہيں ہوتى تو اسے چاہئے كہ وہ  ايسا كرے.

ارشاد بارى ہے: ﴿وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ (البقرہ 190)، ترجمہ: اور اللہ کی راہ ميں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہيں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو.

اسلام عالمی دعوت (پيغام) ہے اور اسے پوری دنيا تک پہنچانا انتھائی ضروری ہے چنانچہ وسيلہ سفر ايک جگہ دوسرى جگہ  پہنچنا ہے اورسفر پہلے بھی خطرناک اور آج بھی خطرے سے خالی نہيں اس وجہ سے اسلحوں سے ليس ہونا ضروری ہے تاکہ دشمن دعوت اسلام کی راہ ميں حائل نہ ہوں.

اور چونکہ اسلام ايک نئی قوت ہے اس وجہ سے پہلے سے موجود طاقتوں کا اس سے جنگ کرنا ايک متوقع امر ہے يہاں تک کہ وہاں کے اقتدار ميں مزاحم نہ ہو اور ہر زمانے ميں لوگوں کی يہی حالت رہی ہے ، چنانچہ اسلام کا دفاع انتھائی ضروری ہو جاتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو قائم کرے اور اپنا پيغام پہنچائے.

اور اگر ماضی ميں تلوار تھی تو يہ راہ تبليغ کی حفاظت کيلئے انتھائی ضروری ليکن آج کے زمانے ميں اسکا سوائے اسکے کوئی اور مصرف نہيں کہ اسلام اور اسکے ماننے والوں کے خلاف شر پسندوں سے دفاع کرنا ہے جہاں تک اسلام کی نشر و اشاعت کا تعلق ہے تو اسکيلئے کئی وسائل ہيں ، اسکے لئے سفر کی ضرورت نہيں اور نہ ہی راستے کے خطرات کا کوئی خوف ہے چنانچہ آج ذرائع ابلاغ  سرحدوں کو پار کر رہے ہيں چنانچہ لوگ اپنے گھروں ميں بيٹھے ہوئے معلومات حاصل کر لينے ہيں ۔ اقتدار انہيں نہيں روک سکتا اور نہ سر حديں اور دروازے اسکی راہ ميں حائل ہوتے ہيں.

اسلامی دعوت پيش کی جائی ہے مسلط نہيں اور عقائد کبھی زبردستی نہيں ٹھونسے گئے اللہ تعالی نوح کے سلسلے ميں فرماتا ہے: ﴿أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ (ھود28)، ترجمہ: کيا ھم اسے تم پر جبرا مسلط کر سکتے ہيں درآنحاليكہ تم اسے نا پسند کرتے ہو ، اور حضرت محمد مصطفی ـ  صلی اللہ عليہ وسلم ـ سے اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس 99)، ترجمہ: تو کيا آپ لوگوں پر جبر کريں گے يہاں تک کہ وہ مومن ہو جائيں.

جب حضور نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجھھ کو خيبر کے يہوديوں سے لڑنے کے لئے بھيجا تو آپ صلی اللہ عليہ و سلم نے ارشاد فرمايا : کيا تم ان سے لڑوگے يہاں تک کہ وہ ھماری مانند ہو جائيں ؟ يعنی کيا تم انہيں اسلام پر مجبور کروگے، چنانچہ آپ صلی اللہ عليہ و سلم نے ان سے فرمايا : انفذ علی رسلک ...... ۔

اس حديث شريف کا مفہوم ہے ۔ تم اپنی اونٹی پر وہاں جاؤ جب انکے علاقے ميں پہنچو تو انہيں اسلام کی دعوت دو اور انہيں اللہ تعالی کے حق سے اگاہ کرو خدا کی قسم اللہ رب العزت تمھارے ذريعے ايک شخص کو بھی ھدايت دے دے تو اس سے بہتر ہے کہ تمھارے ليئے عمدہ چنے ہوئے اونٹ ہوں، امام مسلم نے اسے روايت کيا ہے:

اگر ايسی نصوص وارد ہوئيں جو بظاھر قتال کے مطلق حکم پر دلالت یرتی ہيں تو ايسی نصوص بھی ہيں جو اس حکم کو محدود کرتی ہيں جن ميں وقوع پذير جارحيت کا رد يا معاہدے کی خلاف ورزی کی جزاء يا مستقبل ميں ہونے والی جارحيت کو روکنے جيسی صورتيں ہيں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا  (البقرہ : 190)، ترجمہ: اور اللہ کی راہ ميں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہيں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو .

اور اللہ تعالینے ايک اور مقام پر فرمايا: ﴿وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْر (التوبة 12)، ترجمہ: اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسميں توڑديں اور تمھارے دين ميں طعنہ زنی کريں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو.

چنانچہ اللہ تعالی کے اس قول سے بھی امر مطلق محدود ہوتا ہے: " وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً "(التوبة 36)، ترجمہ: اور تم (بھی) تمام مشرکين سےاس طرح (جوابی) جنگ کيا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اكٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہيں، اور اسی طرح دوسری آيات کريمہ ميں ہيں ([1] ). واللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹــر انس ابو شادی        


[1] فتاوی الازھر نمبر 10 ۔ صـ 69 ۔ فضيلہ الشيخ عطيھ صقر ۔ مئی 1997 ۔ القرآن و السنھ۔