اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> توسل(وسيلہ) کا حکم    

سوال : وسيلہ کے حکم کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصہ فتوى: انسان کي موت کے بعد اس سے توسل جائز نہيں اور يہ مذہب ميں نئي بدعت ہے۔

 شيخ ابن عثيمين، فتاوے العقيدہ 267- 270

 تبصرہ:

جمہور فقہا رسول اللہ ﷺ سے توسل کو جائز قرار ديتے ہيں، مثال کے طور پر کہنے والے کا قول ہے اے اللہ ميں تيرے نبي ﷺ کے توسل سے يا تيرے نبي ﷺ کے اعلے مرتبے کو وسيلہ بنا کر يا تيرے نبي ﷺ کے حق کے وسيلے سے تجھـ سے سوال کرتا ہوں خواہ يہ آپ ﷺ کي حيات مبارکہ ميں ہو يا اس فاني دنيا سے رفيق اعلے کي طرف منتقل ہونے کے بعد ہو، دونوں حالتوں ميں جائز ہے۔

علمي رد:

اللہ رب العزت نے اپنے مؤمن بندوں کو متعدد وسائل سے اسکا تقرب حاصل کرنے کا حکم ديا ہے، ان ميں اعمال صالحہ ہيں، سورت المائدہ کي آيت نمبر ۳۵ ميں ارشاد خداوندي ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو.

اسيطرح غار ميں ۳ افراد سے متعلق حديث شريف ميں آيا ہے، اس کے علاوہ اللہ رب العزت کے ناموں اور اس کي حسنات کو وسيلہ بنانے کا حکم ديا ہے، سورة الاعراف کي آيت نمبر ۱۸۰ ميں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾، ترجمہ: اور اللہ ہي کے لئے اچھے اچھے نام ہيں، سو اسے ان ناموں سے پکارو.

اور انہي ميں رسول ﷺ کو توسل بنانا دنيا ميں آپ ﷺ کے توسل سے دعا مانگنا اور آخرت ميں شفاعت چاہنا ہے.

وسيلہ کے جائز ہونے ميں علماء کرام کے درميان اختلاف نہيں ہے، رسول ﷺ کے اس ظاہري دنيا سے تشريف لے جانے کے بعد توسل کے جائز ہونے کے بارے ميں علماء کرام کے درميان اختلاف ہے جيسا كہ کہنے والے کا قول ہے،، اے اللہ ميں تيرے نبي ﷺ کے وسيلہ سے يا تيرے نبي ﷺ کے مقام اعلے کو وسيلہ بنا کر يا تيرے نبي ﷺ کے حق کے وسيلہ سے تجھـ سے سوال کرتا ہوں، چنانچہ جمہور فقہاء ،،مالکي، شافعي اور بعد کے حنفي علماء اور حنبلي علماء،، اس قسم کے وسيلہ کو جائز کہتے ہيں، خواہ يہ حضور ﷺ کي اس ظاہري حيات مبارکہ ميں ہو يا اس دنيا سے تشريف لے جانے کے بعد ہو، دونون حالتون ميں جائز ہے.

 امام قسطلاني نے کہا، روايت کي گئي ہے کہ جب بني عباس كے دوسرے خليفہ ابو جعفر منصور عباسي نے حضرت امام مالک سے دريافت کيا: اے ابو عبداللہ کيا ميں رسول ﷺ کي طرف متوجہ ہوں اور دعا کروں يا قبلہ کي طرف رخ کروں، چنانچہ امام مالک نے ان سے کہا: اپنا چہرہ ان سے يعني رسول ﷺ سے کيوں پھيرو، جبکہ آپ ﷺ روز قيامت اللہ رب العزت کي طرف تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عليہ السلام کا وسيلہ ہيں۔ بلکہ آپ ﷺ کي جانب متوجہ ہو اور آپ ﷺ سے شفاعت چاہو سو اللہ رب العزت آپ ﷺ کي شفاعت قبول فرماتا ہے، يہي واقعہ امام ابو الحسن علے بن الفہر نے اپني کتاب ،،فضائل مالک،، ميں قابل قبول سند سے بيان کيا ہے اور قاضي ۜعياض نے اپني کتاب ،،الشفاء،، ميں اپنے متعدد باوثوق نتائج سے اپنے طريقے کي طرف منسوب کيا ہے،( تخريج کي ہے)۔([1])

بعد ميں آنے والے حنبليوں کا خيال ہے کہ نبي کريم ﷺ کي ذات اقدس سے توسل جائز نہيں، علامہ ابن تيميہ نے بيان کيا ہے۔ ([2] )

انہوں نے کہا ہے: اسالک بنبيک محمد، ميں تيرے نبي محمد ﷺ کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کے ان الفاظ سے وسيلہ جائز ہے، اگرچہ يہاں تقدير مضاف ہے چنانچہ کہنے والے کے اس قول: اسالک بنبيک محمد ﷺ سے يہ مراد ليا جائگا کہ اس کا ارادہ يہ ہے ميں تجھ سے آپ ﷺ پر اپنے ايمان اور آپ سے اپني محبت کے واسطے سے اور آپ ﷺ پر اپنے ايمان اور اپني محبت کو تيري بارگاہ ميں وسيلہ بناتا ہوں اور اسي انداز پر ہو تو يہ جائز ہے، چنانچہ جس کا ارادہ يہ مفہوم ہو تو يہ بہتر ہے اور اس صورت مين مسئلہ ميں کوئي تنازعہ نہيں ہوگا، ليکن بہت سے لوگ يہ الفاظ تو کہتے ہيں ليکن انکا مقصد يہ مفہوم نہيں ہوتا پہر انہي لوگوں کے لئے انکار کيا گيا ہے۔

 جہانتک نبي کے علاوہ صالحين يعني اولياء کرام سے توسل کا تعلق ہے تو ان سے توسل کا حکم رسول ﷺ سے توسل کے بارے ميں جو اختلاف بيان ہو چکا ہے اس سے باہر نہين ہے، علامہ ابن تيميہ نے اقرار کيا ہے کہ يہ مسئلہ اختلافي ہے اور حرام اور گناہ ہے، مسئلہ کے اختلاف کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہيں: کسي نے بہي يہ نہيں کہا کہ جس نے پہلا قول کہا اس نے کفر کيا، اور اس کي تکفير کي کوئي وجہ نہيں ہے، بس يہ مسئلہ خفي يعني پوشيدہ ہے اور اس کے دلائل واضح اور ظاہر نہيں ہيں اور يہاں کفر کا مفہوم دين کي معلوم باتوں کا انکار يا دين کے متواتر اور متفقہ احکام وغيرہ کا انکار ھونا، يہي نہين بلکہ اس قسم کے امور مين کفر کا فتوے دينے والا ايسي سخت سزا اور شرعي حد سے کم سزا کا مستحق ہوتا ہے جن سزاؤں کے مستحق مذہب ميں افتراء بازي کرنے والے اور انہي جيسے لوگ ہوتے ہيں۔

بالخصوص جبکہ رسول ﷺ کي يہ حديث شريف ہے: "أيما رجل قال لأخيه: يا كافر فقد باء به أحدهما ترجمہ: جو شخص بہي اپنے بھائي سے کہے اے کافر تو ان دونوں ميں سے کوئي ايک ہوگا۔ ([3])

                                                                                                ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] امام نووي نے روضہ اطھر رسول ﷺ کي زيارت کے آداب کے بيان ميں لکھا ہے، پھر زائر رسول ﷺ کے چہرہ مبارک کي طرف متوجہ ہوتے ہيں، چنانچہ آپ ﷺ سے توسل کرتے ہيں اور اپنے رب کے حضور آپ ﷺ سے شفاعت چاہتے ہيں اور زائر جو کچھ عرض کرتا ہے اس ميں سب سے بہتر وہ جسے ص ۵۶ جيسے حضرت ماوردي قاضي ابو الطيب اور ہمارے تمام دوستوں نے عتبي سے انکے احسان بتاتے ہوئے بيان کيا ہے، انہوں نے کہا: ميں رسول ﷺ کے روضہ اطہر کے پاس بيٹھا تھا کہ ايک اعرابي آپ ﷺ کے پاس آيا اور کہا: السلام عليک يا رسول اللہ ميں نے اللہ رب العزت کا يہ فرمان سنا: ولوا انہم۔۔۔ توابا رحيما، سورت نساء کي اس آيت کريمہ کا مفہوم ہے؛ اے حبيب اگر وہ لوگ جب اپني جانوں پر ظلم کر بيٹھے تھے آپکي خدمت ميں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافي مانگتے اور رسول ﷺ بھي انکے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ اس وسيلے اور شفاعت کي بنا پر ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہايت مہربان پاتے، ميں اپنے گناہوں سے مغفرت چاہتے اور اپنے حضور آپکي شفاعت چاہنے کے واسطے آپ ﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوا ہوں، اسکے بعد اس نے يہ اشعار پڑھے:

اے سب مخلوق سے بہتر دفن ہويں مٹي ميں جنکي ہڈياں  بس پاک ہو گئے انکي پاکيزگي سے ٹيلے اور ميدان

ميري جان فدا ہو اس قبر پر جسميں آپ کا قيام ہے                           اسي ميں ہے پاک دامني اور اسي ميں سخاوت اور شرافت 

 

[2] ابن تيميہ نے کہا: آپ ﷺ پر ايمان آپ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کي اطاعت، آپ ﷺ پر صلاة و سلام، آپ ﷺ کي دعا اور شفاعت اسي طرح کي دوسري باتوں سے توسل جائز ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔۔۔ الفتاوے الکبرى: ابن تيميہ، 2/322۔

 

[3] الموسوعہ الفقہيہ، ۱۴، ۱۶۱۔