اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> جادو کرنے اور اسے سيکھنے کا حکم    

سوال : جادو کرنے اور اسے سيکھنے کے حکم کے بارے ميں سوال کيا گيا؟  

خلاصہ فتوی: جادو ، دين سے خارج کرنے والا کفر ہے-

شيخ ابن باز ۔ مجموع فتاوی ۔ 2/118 ۔ 122

 تبصرہ:

اگر جادوگر کا يہ عقيدہ ہو کہ جادو کا اثر اللہ رب العزت کے ارادے سے بعيد ہے تو وہ کفر کرتا ہے- لوگوں کو نقصان يا ضرر پہنچانے کی خاطر جادو کرنا حرام ہے- حتی کہ اسکا يہ خيال ہو کہ وہ اللہ رب العزت کے حکم سے اثر انداز ہوتا ہے تب بھی حرام ہے- اور بندوں پر سے نقصان كے ازالے کی خاطراس عقيدے کے ساتھـ (جادو) کرنا کہ اللہ کے حکم سے اسکا اثر ہوتا ہے اس سلسلے ميں علماء کا اختلاف ہے-

علمی رد:

1-     يہ اعتقاد کہ جادو کا اثر اللہ تعالی کے ارادے کے بغير ہوتا ہے تو يہ کفر ہے، يہ متفقہ راۓ ہے-

2-  لوگوں کو ضرر پہنچانے کيلۓ جادو کرنا حرام ہے حتی کہ اس عقيدے کے ساتھـ تھی حرام ہے کہ اسکا اثر اللہ تعالی کے حکم سے ہوتا ہے- چنانچہ اسلام ميں نہ تو ضرر قبول کرنا ہے اور نہ ضرر پہنچانا ہے-

3-   کسی مفاد کے حصول کيلۓ اس عقيدے کے ساتھـ جادو کرنا کہ اس کا اثر اللہ تعالی کے حکم سے ہوتا ہے۔ اسکے حکم ميں علماء کا اختلاف ہے-

امام قرطبی نے کہا : کيا جادوگر سے سوال کيا جاۓ کہ وہ جادو کا اثر زائل کرنے کيلۓ جادو کرتا ہے-

اس سلسلے ميں امام بخاری نے حضرت سعيد بن مسبب سے روايت کی ہے کہ يہ جائز ہے اور امام مازری بھی اسی کی طرف مائل ہيں اور امام حسن بصری نے اسے نا پسند کيا ہے- امام شعبی کا خيال ہے کہ تعويذ سے جادو زائل کرنے ميں کوئی حرج نہيں اور اسکی تاويل دم سے مسحور کا علاج کرنے سے کی گئی ہے-([1]). 

فضيلت مآب شيخ عبدالمحسن العبيکان جادو کا توڑ جادو سے کرنے کو جائز قرار ديتے ہيں اور انہوں نے کسی جادوگر کے ہاتھوں جادو کے اثر کو زائل کرنے کو کئی ايک ائمہ اور علماء کی طرف سے جائز بتانے کی جانب اشارہ کيا اور انہيں ميں حضرت سعيد بن مسبب ، حسن بصری ، امام احمد ، ابن جوزی اور امام بخاری ہيں ، اور کئی ايک حنبلی فقھاء نے اپنی مستند کتابوں ميں اسے بيان کيا ہے-

اور انہوں نے مفتی عبدالعزيز آل شيخ اور الشيخ عبداللہ جيسے بعض اھل علم کے قرآن کريم کی اس آيت کريمہ ﴿وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (طہ 69)، ترجمہ: اور جادوگر کہيں سے بھی آئے کامياب نہيں ہوتا،  سے مطلق استدلال کرنے کی جانب اشارہ کيا ، جبکہ پہلے کسی بھی عالم نے اپنے علم سے استدلال نہيں کيا کيونکہ يہ انکے اقوال پر دور يا قريب کہيں سے بھی دلالت نہيں کرتی، اگر انکا مقصد اخروی کاميابی ہے جو کہ اس آيت کريمہ سے مقصود ہے توھم اس سے اتفاق کرتے ہيں کہ جادوگر فلاح نہيں پاتا اور اسکا عمل باطل ہے اگر "لا يفـلح " سے انکا مقصد يہ ہو کہ وہ علاج اور جادو کا اثر دور کرنے ميں کامياب نہيں ہوگا توھم ان سے کہيں گے کہ قرآن کريم  اس مفہوم کی تکذيب کرتا ہے، اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ﴿فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ (البقرہ 102)، ترجمہ: پھر لوگ ان دونوں سے وہ سيکھتے ہيں جس سے خاوند اور بيوی ميں جدائی ڈال دے.

چنانچہ انکے درميان جدائی ہو جاتی ہے ، اور اس سے يقين دھانی ہو‏تی ہے کہ جادوگر اس جدائی ميں کامياب ہو جاتے ہيں جس طرح وہ اس کے اثر کو زائل کرنے ميں کامياب ہوتے ہيں، اس وجہ سے اس آيت کريمہ کی يہ تفسير نہيں کی جا سکتی کہ جادوگر جادو کا اثر زائل کرنے ميں کامياب نہيں ہوتا کيونکہ يہ قرآن کريم اور امر واقع کے خلاف ہے-

شيخ عبيکان سے انکے فتوی پر اس حالت ميں کہ انکے کسی قريبی شخص پر جادو کيا گيا ہو  عملدرآمد سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب انہوں نے کہا ـ جی ہاں ـ اگر يہ ضروری ہو کہ ميرا قريبی شخص کسی جادوگر سے علاج اور جادو کو زائل کرائے ميں بلا شبہ ہرگز تردد نہيں کرونگا کيونکہ ميں مکمل طور پر مطمئن ہوں کہ يہ حکم صحيح ہے اور اسميں کوئی بھی ابھام نہيں ہے-

جادو ميں استعمال کئے جانے والے وسائل اور اشياء سے جادوگر اور اسکے ماہرين بخوبی واقف ہوتے ہيں، اور وہ خود جادوگر کی ذات سے تعلق رکھتی ہيں يا دوسروں سے اور يہ دوسرے ، کمزور نفوس پر تسلط قائم کرنے والے قوی نفوس والے بھی ہو سکتے ہيں اور کبھی جن ، قوی ارادے، اور لوبان سے مدد لينا بھی ہو سکتا ہے اور جيسا کہ انکے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ يہ ہاتو کی صفائی ، آنکھوں کی قريبی ہے، اسی ميں معين خصوصيات والی ادويہ بھی استعمال کی جاتی ہيں مثال کے طور پر وہ اپنے جسموں پر (کو‏ئی چيز) لگاتے ہيں چنانچہ ان پر آگ کا اثر نہيں ہوتا- اللہ اعلم بالصواب -

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] الزواجرلابن حجر 3/ 104.