خلاصۂ
فتوی:
ممنوع
مشابھت در حقيقت وہ مشابھت ہے جسکا تعلق کفار کی عادات ،
عقائد اور عبادات سے ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ انکی ممنوعہ
مشابھت ميں غفلت کفر تک پہنچا دے۔
اللجنہ
الدائمہ للبحوث العلميہ و الافتاء ۔ مجلہ البحوث 42/94
تبصرہ:
اورکوٹ ،
پتلون ، سليپنگ سوٹ اور جيکٹ جيسے لباس جو شرعی طور پر
ممنوع لباسوں کی مانند نہ ہوں ، کا پہننا جائز ہے ۔ مذموم
اشياء ، بری عادات ميں اھل کتاب کی مشابھت ممنوع اور حرام
، اسی طرح اگر انکے باطل اعمال سے خوش ہوتے ہوئے انکی
مشابھت کی نيت سے ايسا کيا جائے تو بھی حرام ہے ۔
علمی رد:
مرد اور
عورت کے لباس عادی قسم کے امور ہيں جو کہ ہر ملت يا خاندان،
زمانے اور جگہ کے مطابق اور يہ کہ اسکے استعمال ميں کيا
فوائد يا نقصانات ہيں اور يہ انکا تعلق عبادت سے نہيں تاکہ
پہنے والا کس نوعيت کے لباس کا تعين کر لے ، يہ اصلا جائز
ہے يہی نہيں بلکہ تمام عادتيں جن سے دينی امور يا بدن کو
نقصان نہيں ہوتا جائز ہے۔ ايسا لباس جسميں آسانی ہو يا
منفعت آميز ہو تو پسنديدہ ہے .اگر لباس نص شرعی سے ممنوع
نہ ہو اور نہ ہی اس لباس کی مانند ہو جو شرعا ممنوع ہے۔
اگر کسی لباس کے بارے ميں ممانعت کی شرعی نص موجود ہو جيسے
مردوں کيلئے ريشم اور سونا غير ضروری طور پر پہننا يا
استعمال کرنا ہے تو پھر يہ لباس ممنوع ہے گويا کہ وہ فخر
يا پسنديدگی کے طور پر لباس پہنتا ہے يا عورت ايسا لباس
پہنتی ہے جس سے اسکا ستر (جسم کا وہ حصہ جسے کا کھولنا
معيوب ہو) ظاہر ہوتا ہو يا ايسا لباس پہنے جس سے اسکا مقصد
کافروں کے لباس سے مشابھت کرنا ہو ، يہ تمام باتيں شرعا
ممنوع ہيں، اس وجہ سے نہيں کہ خود لباس ممنوع ہے ليکن ھم
لفظ ممنوع کے مفہوم کا مقارنہ کرتے ہيں تو کبھی يہ حرام
ہوتا ہے اور کبھی مکروہ ہوتا ہے تو اسکا اندازہ اس لفظ کے
معنی مفہوم کے مطابق لگايا جاتا ہے۔
اس بناپر
يورپين پينٹ اور اس نوعيت کی دوسری چيز کا مردوں کا يا
عورتوں کا پہننا جسکا مقصد صرف اپنی قوم کی عادت کی پيروی
کرنا يا اسکا مقصد بدن کی حفاظت کرنا جيسے تيز دھوب اور اس
طرح کی دوسری چيزوں سے بچنا ، يا اس طرح کوئی اچھا مقصد ہو
تو انکے پہننے ميں کوئی حرج نہيں ، يہی نہيں بلکہ کسی
فائدے کے حصول يا نقصان سے بچنے کيلئے اسکی نيت اچھی ہو تو
يہ بہتر ہے۔
جبکہ
اورکوٹ ، پتلون ، سليپنگ سوٹ، جيکٹ ، ترکی ٹوپی. تو يہ
قومی لباس بن چکے ہيں اور عورتوں يا مردوں کيلئے انکے
پہننے ميں کوئی حرج نہيں. جيسا کہ گزر چکا ہے کہ شرعی طور
پر ممنوع لباس کے مانند نہ ہو۔
ڈاکٹر
عبداللہ فقيہ کی زير نگرانی فتوی مرکز سے:
پرانے
لوگوں کے انداز کی قميص پہننے ميں کوئی حرج نہيں بلکہ اگر
اسکے پہننے والے کی نيت رسول اللہ ـ صلی اللہ عليہ و سلم
ـ کی اقتداء ہو تو اسے سنت کا ثواب ملے گا، اسی طرح عام
قمصيں اور پتلونيں پہننے ميں بھی کوئی حرج نہيں بشرطيکہ وہ
ستر پوشى کرتی ہوں، جسم کے اعضاء کو ظاہر نہ کرتی ہوں ، يا
يہ ريشم کی بنی ہوئی نہ ہوں ([1]
). اللہ اعلم بالصواب.
جشمہ لگانے،
ہار، انگوٹھی، کنگن يا اسی طرح سونے کی بنی ہوئی دوسری
چيزيں يہ مردوں پر حرام ہيں اور عورتوں کيلئے ان کا
استعمال جائز ہے اسی طرح چاندی کے يہ اور دوسرے زيور پہننا
بھی جائز ہے ۔ اور مردوں کيلئے چاندی کی انگوٹھی پہننا
جائز ہے.
اور
جہاں تک اس مشابہت كا تعلق ہے جو كہ كفرہے اور جس پر يہ
حديث مباركہ دلالت كرتى ہے.
حضور اکرم
ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ کی حديث شريف ہے: من تشبھ بقوم
فھو منھم.([2]
)، ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابھت اختيار کی تو وہ انہی
ميں سے ہے۔
يہ ان کے
کسی مذہبی شعار ميں مشابھت ہے جس سے اس کا مقصد ان کے مذھب
کی توقير اور دين اسلام کی تحقير ہو ،([3]
)( ان حالتوں ميں وہ حديث پاک کی رو سے يقينا کافر ہے).
اللہ تعالی اعلم بالصواب.
ڈاکٹر ياسر
عبدالعظيم
[1]
المفتی : مرکز الفتوی زير نگرانی ڈاکٹر عبداللہ
الفقيہ فتوی نمبر 10005 قميص اور پتلون کے ساتھـ
اسے پہننے کا حکم ۔ تاريخ فتوی 14 جمادی الثانيہ
1422 .
[2]
امام ابو داود نےسنن ميں ص 4033
حضرت ابن عمرو – رضی اللہ عنہ – سے روايت کی ہے
انہوں کہا : رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے
فرمايا : جس نے کسی قوم کی مشابھت اختيار کی تو وہ
انہی ميں سے ہے ۔ ابن تيميہ نےاپنى كتاب اقتضاء
الصراط المستقيم ميں لکھا ہے کہ اسکی سند جيد ہے۔
[3]
فتاوی دار الافتاء المصريہ ۔ موضوع 683 ۔ مفتی :
شيخ عبد المجيد سليم 14 جمادی الآخر 1347 ھـ/ 26
نومبر 1928ء۔