اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> تركـ نماز    

سوال : دريافت كيا گيا كہ نماز نہ پڑهنے والے شوهر كے ساتهـ عورت كا رہنا يا نماز ادانہ كرنے والى بيوى كے ساتهـ مرد كے رہنے كا كيا حكم ہے.  

خلاصہ فتوى: جواب ديا گيا ہے كہ بے نمازى شوہر كے ساتهـ بيوى كا رہنا جائز نہيں كيونكہ تاركـ صلاة كافر اور ملت اسلاميہ سے خارج ہے اور اسكا نكاح ختم ہو چكا ہے، وه وراثت حاصل نہيں كريگا، اگر وه فوت ہو جائے تو اسے غسل بهى نہيں ديا جائے گا نہ ہى اس كى نماز جنازه اداكى جائے گى، نہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا بلكہ اسے صحراء ميں لے جاكر اسكے كپڑوں ہى ميں اسے دفن كيا جائے كيونكہ اسكا كوئى احترام نہيں ہے.

                                شيخ ابن عثيمين. رسالة صفة صلاة النبي صلى الله عليہ وسلم، 29- 30

 

تبصره:

اس فتوے نے بيكـ قلم پورى دنيا كے تقريبًا ايكـ چوتهائى يا ايكـ تہائى مسلمانوں كو اسلام سے خارج كر ديا ہے يعنى تقريبًا 500 ملين مسلماں مرتد ہوگئے اور انكا قتل كرنا واجب ہوگيا ہے اور انكے انتقال پر نہ تو انكى نماز جنازه اداكى جائے اور نہ ہى انہيں مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائے نہ وراثت حاصل كريں اور نہ ہى انكا كوئى وارث بنے گا اور شوہروں اور بيويوں كے درميان اس وجہ سے عليحدگى ہو گئى كہ وه نماز نہيں پڑهتے،  اور تاريخ اسلام كے كسى زمان ومكان ميں  اسلامى ممالكـ ميں بے نمازيوں كے ساتهـ كبهى ايسا نہيں ہوا بلكہ وه اپنى بيويوں كے ساتهـ رہتے ہيں، وراثت سے حصہ ليتے اور ديتے ہيں اور(فوت ہونے پر) مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كئے جاتے ہيں كيونكہ وه مسلمان ہيں، هم يہ جاننے سے قاصر ہيں كہ ان كمزور آراء پر قائم رہنے، ائمہء كرام، ملت اسلاميہ كے جمہور علماء كى مخالفت اور مسلمانوں كو الله كے دين سے فوج در فوج نكالنے كا مقصد كيا ہے

علمى رد:

نماز اسلام كے بنيادى اركان ميں سے اهم ركن ہے اور ايمان ميں اسكا مقام ومرتبہ ايسے ہى ہے جيسے جسم ميں سر كا ہے. پابندى نماز كى فرضيت ، اسے تركـ كرنے يا اسے ہيچ سمجهنے پر تحذير وتنبيہ كے بارے بہت سى نصوص آئى ہيں. اور تركـ نماز كے سلسلے ميں سب سے اهم امام مسلم كى روايت كر يہ حديث شريف ہے: «‏بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ» ترجمہ: آدمى اور كفر كے درميان حد فاصل نماز ہى ہے.

اس حديث  پر امام نووى كى شرح كا خلاصہ يہ ہے كہ تاركـ نماز اگر اسكى فرضيت كا منكر ہو تو وه تمام مسلمانوں كے نزديكـ متفقہ طور پر ملت اسلاميہ سے خارج اور كا فر ہے. سوائے اس كے كہ اسے اسلام لائے ہوئے زياده وقت نہيں گزرا اور مسلمانوں سے اس قدر ملنے جلنے كا اتفاق نہيں ہوا كہ نماز كى فرضيت سے واقف ہو. اور اگر كسى نے نماز كى فرضيت پر عقيده وايمان ركهتے ہوئے كاہلى اور سستى سے نماز تركـ ہو جيسا كہ اكثر لوگوں كا حال ہے. تو جمہور علماء كے نزديكـ اسے كافر نہيں بلكہ فاسق كہا جاتا ہے اور اسے توبہ كرنے كى ترغيب دى جاتى ہے. جبكہ امام احمد بن حنبل سے مروى دو روايتوں ميں سے ايكـ روايت كے مطابق وه اسے كافر قرار ديتے ہيں.

اور انہوں نے مذكوره حديث شريف كے ظاهرى مفہوم سے استدلال كيا ہے.

 

تاركـ نماز كى تكفير نہ كرنے والوں كے دلائل ارشاد بارى تعالى ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ   (النساء116). ترجمہ: بے شكـ الله تعالى اس(بات) كو معاف نہيں كرتا كہ اس كے ساتهـ كسى كو شريكـ ٹهہرايا جائے اور جو گناه اس سے نيچے ہے جس كيلئے چاہے معاف فرما ديتا ہے.

اور حضور صلى الله عليہ وسلم كا آرشاد گرامى اسى پر دلالت كرتا ہے. جسميں آپ نے فرمايا: «مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ» ايكـ اور مقام پر آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: «حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» جس نے.لا الہ الا الله كہا. اس پر جہنم حرام ہو گئى.

اور وه لوگ جو تاركـ نماز كو كافر قرار نہيں ديتے وه اس حديث پاكـ. «بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ» آدمى اور كفر وشركـ كے درميان حد فاصل نماز ہى ہے،  كے بارے ميں جواب ديتے ہيں كہ اسكا مفہوم يہ وه كفر كى سزا كا مستحق ہے. اور وه ہے قتل بشرطكہ اس سے توبہ كرنے كا مطالبہ كيا گيا اور وه تركـ نماز پر مصّر رہا يا حلال سمجهنے پر قائم رہا يا يہ كہ اسكے اس عمل سے كفر كى تاويل كى جائے. يا اسكے اس فعل كو كافروں كا فعل قرار ديا جائے.

امام السبكى طبقات الشافعيہ ميں بيان كرتے ہيں. تاركـ نماز كے موضوع پر امام شافعى اور امام احمد بن حنبل كے درميان مناظره ہوا: تو امام شافعى نے امام احمد سے كہا كيا آپ كہتے ہيں كہ اس(تاركـ نماز) كو كافر كہا جائے؟ امام احمد بن حنبل نے كہا. هاں.

امام الشافعى نے كہا: اگر وه كافر ہے تو پهر مسلماں كس سے ہوگا

امام احمد نے كہا: وه كہے. لا اله الا الله محمد رسول الله

امام شافعى نے كہا: وه ہميشہ يہ قول كہتا ہے اور اس نے كبهى تركـ نہيں كيا

امام احمد نے كہا: واسلام قبول كرتا ہے كہ نماز اداكرے

امام شافعى نے كہا: كافر كى نماز صحيح نہيں ہوتى ہے اور (نماز ادا كرنے) سے اسكے اسلام كا حكم نہيں لگايا جاتا. تو امام احمد خاموش ہو گئے([1])

امام ابن قدامہ نے اپنى كتاب"المغنى" ميں اسى رائے كہ ترجيح دى ہے كہ وه(تاركـ نماز) امام احمد بن حنبل كے مذهب كے مطابق بهى كافر نہيں ہے. تو ثابت ہوا كہ تاركـ نماز چاروں ائمہ كرام اور جمہور اهل علم كے نزديكـ كافر نہيں ہے.

چنانچہ اسكے بعد اسميں بهى كوئى شبہ نہ رہا كہ اسكے اپنى بيوى كے ساتهـ تعلقات بهى صحيح ہيں.

ابن قدامہ نے مزيد بيان كيا هيكہ پورى اسلامى تاريخ ميں يہ ثابت نہيں كہ كسى مسلماں جج نے تركـ نماز كى وجہ سے بيوى اور شوهر ميں عليحدگى كرائى ہو. باوجود اسكے كہ تمام زمانوں ميں بےنماز يوں كى تعداد بہت زياده رہى ہے... اور انہوں نے كہا كہ هميں يہ معلوم نہيں كہ كسى زمانے ميں تاركـ نماز كو غسل دئيے بغير، اس پر نماز جنازه كى ادائيگى اور مسلمانوں كے قبرستان ميں اسكى تدفين نہ كى گئى ہو، اور نہ ہى اسكے ورثاء كو اسكا وارث بننے اور اسے اپنے مورث كا وارث بننے سے منع كيا گيا. اور نہ ہى تاركين نماز كى كثرت كے باوجود زوجين ميں سے كسى كے تاركـ نماز ہونے كى وجہ سے ان ميں عليحدگى كرائى گئى، اور اگر وه كافر ہوتا تو يہ سارے احكام ثابت ہوتے([2])

فضيلت مآب ڈاكٹر سعود بن عبد الله الفنيسان كہتے ہيں

 پورى اسلامى تاريخ ميں آجتكـ ايسى بات سامنے نہيں آئى كہ كسى شخص كو نماز تركـ كرنے كى وجہ سے مرتد كے طور پر قتل كيا گيا ہو- علاوه ازين اس قول كى وجہ سے اسكى بيوى كو طلاق اور اسكى اولاد نا جائز ہوگى جبكہ نماز تركـ كرنے والوں كى تعداد بہت زياده ہے.

اور ميرے نزديكـ  سستى اور عدم اهتمام كى وجہ سے نماز ادا نہ كرنے والوں كى تكفير نہ كرنے والا قول صحيح ہے([3]) والله أعلم بالصواب.

اس بناپر نماز نہ پڑهنے والا شوهر اس وقت تكـ كافر نہيں سمجها جاتا جبتكـ كہ وه اسكے يعنى نماز كے واجب ہونے پر ايمان ركهتا ہے، اور بيوى كو چاہيے كہ اسكو سلسل نصيحت كرتى رہے اور نا     ہوئے بغير اسے نماز كى طرف بلاتى رہے اور اسے نماز تركـ كرنے كے انجام كا خوف دلائى رہے اور ايسى اچهى صحبت دے جو اسے راه حق پر لے آئے ان حالات ميں اچهى صحبت جادوئى اثر ركهتى ہے. اور نماز نہ پڑهنے والى بيوى كا بهى يہى حكم ہے اور هم اسكے شوهر كو بهى يہى نصيحت كرتے ہيں. كہ وه اسے نماز اور استقامت كى ترغيب دے اور اسے طلاق دينے ميں عجلت نہ كرے اور الله رب العزت كا يہ فرمان. ﴿وَأْمُرْ أَهْلَك بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (سورة طه 132). سوره طہ كى اس آيت كريمه كا مفہوم ہے اور آپ اپنے گهر والوں كو نماز كا حكم فرمائيں اور اس پر ثابت قدم رہيں.

اور ان دونوں كو چاہئے كہ وه نماز تہجد اور فجر كى دعاؤں سے مد د حاصل كريں اور اسے يہ جان لينا چاہيے كہ اگر الله رب العزت بے نمازى كو هدايت عطا فرمائے توبہ اسكے دين و دنيا اور جو كچهـ اسميں ہے اس سے كہيں بہتر ہے. و الله أعلم بالصواب.

                                                          ڈاكٹر محمد فؤاد


[1] فتاوى دار الإفتاء المصرية. موضوع 35. مفتى شيخ عطيہ صقر مئى 1996ء. اور يہ معمولى رد وبدل كے ساتهـ انٹرنيٹ سے مصرى وزارة اوقاف كى ويب سائيٹز سے نقل كيا گيا ہے.

[2] المغنى لابن قدامہ 2/ 158. اس نے كہا كہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:

"صلّو على من قال لا اله الا الله" كہ جو لا اله الا الله كہے اس پر نماز پڑها كرو. اور يہ كہ يہ اجماع امت ہے.. اور مسلمانوں كے درميان اسميں بهى اختلاف نہيں كہ تاركـ نماز پر اسكى قضاء ہونے والى نمازوں كى ادائيگى واجب اور فرض ہے اور اگر وه مرتد ہوتا تو اس پر روزوں اور نمازوں كى قضاء لازم نہ ہوتى-

اور جہاں تكـ بيان كر ده احاديث مباركہ كا تعلق ہے تو يہ سختى اور كفار سے اسے (تاركـ نماز) تشبيه دينے كے طور پر لائى گئى ہيں حقيقت كے طور پر نہيں جيسا كه  آپ صلى الله عليہ وسلم كا فرمان عاليشان  ہے. "سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر" مسلمان كو گالى دينا فسق اور ا س سے لڑنا كفر ہے.

ايكـ اور حديث مباركہ ہے-

" ومن آتى حائضا أو أمرأة في  دبرها فقد كفر بما أنزل على محمد" كہ جس نے حائضہ عورت سے ہم بسترى، با كسى اور عورت سے لواطت كى تو اس نے حضور صلى الله عليہ وسلم پر نازل شده(شريعت) كا انكار كيا.

ايكـ اور حديث شريف ہے- "ومن قال مطرنا بنوء الكواكب فهو كافر بالله، مؤمن بالكواكب". جس كسى نے كہا كہ هم پر سيّاروں نے بارش كى چنانچہ وه الله تعالى كا منكر اور سياروں پر ايمان ركهنے والا ہے. ايكـ اور مقام پر ارشاد فرمايا: 

 "من حلف بغير الله فقد أشرك" جس نے الله تعالى كے علاوه كسى اور كى قسم كهانى يس اس نے شركـ كيا. اور ايكـ اور حديث مبار كہ ہے"شارب الخمر كعابد وثن" شراب نوشى كرنے والا بتوں كى عبادت كرنے والے كى مانند ہے، اور اسى طرح كى دوسرى احاديث مباركہ جن سے وعيد كى شدت بتانا مقصود ہے.  اور دونوں اقوال ميں صحيح ترين يہى(عدم كفر) ہے.

[3] فضيلت سعود بن عبد الله الفنيسان، سابق ڈين كليہ الشريعہ. جامعہ اسلاميه امام محمد بن سعود. الاسلام اليوم ويب سائيٹز. بتاريخ آٹهـ ذيقعد 1427هـ