اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> يوم ولادت منانے کا حکم  

سوال : يوم ولادت کا جشن منانے کے حکم کے بارے مين دريافت کيا گيا؟  

خلاصھ فتوئ: يوم ولادت کا جشن منانا جائز نہين يھ مذھب مين بعد مين آئي بدعت ھے۔

الشيخ ابن باز مجموعھ فتاوے اور مقالات 4 /۸۱

                                         الشيخ ياسر برھامي www.alsalafway.com

تبصرہ:

اس زمانے مين جشن يوم ولادت منانا جائز ھے کيونکہ نوجوان ان ديگر جشنون کي بھتات  جو مذھبي مناسبات پر چھا رھے ميں اپنے مذھب اور اباو اجداد کوتقريبا بھلا رہے ہين اس وجہ سے مرد عورت کے اختلاط کھانے پينے مقابلے کھيل اور اللہ کے گھر  کے عدم احترام جيسے تمام ممنوعہ اعمال ، مذھب اور ادب کي منافي ہر بات سے دور رہتے ہوے ولادت منانا جائز ہے.

علمي رد:

بہت سے علما نے کئي بدعات  کے باعث يوم ولادت کے جشن کا انکار کيا ہے يہانتک کھ انہون نے يوم ولادت منانے ہي کا بنيادي طور پر انکار کار ديا ہے اور نوين صدي لوگون کے درميان جائز اور نا جائز کے مختلف احکام لے کر آئي، امام سيوطي  ابن حجر اور ھيثمي نے جشن يوم ولادت کو پسنديدہ بتايا ہے۔ اور اس موقع پر کيجا نيوالى  بدعت کا انکار کيا ہے۔ انکے راے کى بنياد  سورة ابراھيم کى يہ آيت كريمہ ہے: ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ، تر جمہ:  اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے۔

اور ايام اللہ اللہ رب العزت کي نعمتين اور اسکي قوتين ھين۔ اور رسول اللہ اللہ کي سب سے بڑي نعمت ہے صحيح مسلم مين حضرت ابو قتادہ سے روايت ھے انھون نے کھا نبي اکرم سے پير کے دن کے روزھ کے بارے دريافت کيا گيا تو آپ نے فرمايا: "ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ ‏أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ"، وہ اس لئے کھ اس دن مين پيدا ہوا ا ور اس دن مين مبعوث کيا گيا اس دن مجھـ پروحى نازل کي گئي"  يہ رسول اللہ کي طرف سے تعليم ہے کہ بھلائيون اور اسکي اطاعت کر کے اپنے اور اللہ رب العزت کي نعمتون کا شکريھ ادا کرين۔

نبي کريم کي ولادت با سعادت اور ہدايت ہم پرالله رب العزت کي نعمت ہے اس وجھ سے شريعت کے اصول کے مطابق اس کا جشن منانا اللہ رب العزت کے حضور شکر ادا کرنا ہے۔ ليکن محض مخصوص رسوم کي ادائيگي نھ ہو بلکھ اطراف کے لوگون مين اس جشن کو پھيلايا جائے ، جائز طريقون سے اللھ  رب العزت سے قربت حاصل کي جائے اور لوگون کو اس کي فضيلت سے واقف کرايا جائے اور شرعا ممنوعہ باتون سے اجتناب کيا جائے۔ جہان تک کھانون کي عادات کا تعلق ہے تو يھ اللھ رب العزت کے اس فرمان کے ضمن مين آتي ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ (البقرة 172)، تر جمہ: اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو.

چنانچہ اس زمانہ مين جشن ولادت منانا جائز ہے جس مين نوجوان ان ديگر جشنون کي بھتات مين جو مذھبي مناسبات پر چھا رہے ہين اپنے آباو اجداد کو تقريبا بھلا رہے ہين اس وجہ سے مرد و عورتون کا مشکوک حالتون مين ايک جگھ جمع ہونا کھانے پينے مقابلے ناجائز اعمال کے مواقع اور اللہ رب العزت کے گھر کي بے حرمتي جيسے تمام ممنوعہ، اعمال اور مذھب و ادب کے منافي ہر بات سے دور رہتے ہوے يوم ولادت منانا جائز ہے۔ اور اگر ان غير شرعي امور کا غلبھ ہو جائے تو فساد کو روکنے کے لئے جشن منانا بہتر ہے۔ جيسا کے اصول تشريع سے ثابت ہوتا ہے اگر مثبت امور اور جائز منفعتين زيادہ ہون  تو استطاعت کے مطابق آگہي اور منفي باتون کو روکتے يا انکي حد بندي کرتے ہوئے ان جشنون کے منانے مين کوئي ممانعت نہين ھے۔ بہت سے اچھے اعمال مخالف باتون سے خراب ہو جاتے ہين خواہ يہ کسي حد تک ہون مجموعي طور پر مطلوب اور جائز طريقون سے اچھي باتون کا حکم دينا اور برائي سے روکنا ہے۔

امام زرقاني، قسطلاني کي کتاب المواھب اللدنيھ کي شرح مين لکھتے ہين کھ قرآن کريم کي قرات کے امام ابن حزري متوفى سن ۸۳۳ھ نے امام بخاري اور دوسرون کي روايت کردہ ابو لھب کي اس خبر پر کہ اس نے رسول اللھ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي ولادت کي خوشخبري لانے والي اپني کنيز ثوبيھ کو آزاد کر ديا تھا تو اللہ نے جھنم مين اس پر عذاب کم کر ديا ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا يھ کافر جس کي قرآن کريم نے مذمت کي ہے اگر رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي شب ولادت اس کے خوش ہونے پر جہنم ميں اس پر عذاب کم ہو تا ہے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم  کے امتي اللہ رب العزت کي واحدانيت پر ايمان لانے والے مسلمان کي کيا شان ہوگي جب وہ رسول اللہ صل اللہ عليہ وسلم کي ولادت با سعادت پر خوش ہو اور آپ کي محبت مين اپني قدرت و استطاعت کے مطابق خرچ کرنا ہو۔

حافظ شمس الدين محمد بن ناصر اپنے اشعار مين کھتے ہين جنكا ترجمہ ہے:

اگر يھ کافر جس کي مذمت آئي ہے اور وہ اپنے ٹوٹے ھوئے دونون ھاتھون سے ہميشھ جہنم مين ہو ، جب بھي پير کا دن آتا ہے تو رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي ولادت پر خوش ہونے کي وجہ سے.

ہميشھ اس پر عذاب کم ہو جاتا ہے ، تو اس بندے کے بارے مين کيا خيال ہےجو اپني پوري زندگي احمد سے خوش رہا اور موحد مرا۔

ابن اسحاق نے ترجيح دي ہے کہ رسول اللہ- صلى اللہ عليھ وسلم- کي ولادت با سعادت عام الفيل کے ماہ ربيع الاول کي بارہ تاريخ کي شب ہوئي تھي اور انھون نے ابن ابي شيبہ سے انہون نے حضرت ابن عباس اور ان دونون کے علاوہ دوسرون سے بھي روايت کي ہے۔ اور کھا لوگون کے نزديک يہي مشہور ہے۔ اور مؤلف  کتاب تقويم العرب قبل الاسلام نے فلکي حساب سے بہت ہي دقيق تحقيق کر کے بتايا ہے کہ رسول- صلى اللہ عليھ وسلم-  کي ولادت باسعادت بروز پير ماہ ربيع الاول کي ۹تاريخ مطابق ۲۰ اپريل ۵۷۱ کے دن ہوئي تھي۔ ديکھئے الحاوي للفتاوے للسيوطي مجلہ الھدايہ شائع تونس ماہ ربيع الاول ۱۳۹۴م۔([1])

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] فتاوے دارالافتا المصريہ۔ موضوع ۹۲۔ مفتي فضيلہ الشيخ عطيہ صقر۔ مئي ۱۹۹۷م۔