اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> انبياء كرام اور صالحين سے توسل اور استغاثہ    

سوال : انبياء كرام اور صالحين سے توسل اور استغاثہ كا حكم دريافت كيا گيا.  

خلاصہ فتوى: جس كسى نے غير الله كى موت كے بعد اسے پكارا يا اس سے مدد طلب كى تو وه شخص شركـ اكبر كا مرتكب مشركـ ہے اور انبياء كرام اور صالحين كو وسيلہ بنانا بدعت اور وسائل شركـ ميں سے ہے.

شيخ ابن باز ـ مجموع فتاوى 5/ 319

الشيخ احمد فريد ـ www.Alsalafway.com

تبصره:

يہ فتوى سابقہ فتوؤں كى مانند كمزور آراء، دلائل اور اكثر مسلمانوں كے با رے ميں سوء ظن كى بناپر مسلمانوں كى ناحق تكفير كا دائره وسيع كرتا ہے اور انہيں كافر كہتا ہےـ جبكہ اكثر علماء كے نزديكـ انكا دامن اعمال غبار سے پاكـ ہے اور نا واقف لوگ جو عقيدے يا عبادت ميں غلطياں كرتے ہيں وه ہميشہ موجود ہيں. اور هم پر واجب ہے كہ هم انہيں وعظ ونصيحت كريں. انہيں تعليم ديں. انكے ساتهـ شفقت ونرمى سے پيش آئيں اور انہيں اسلام سے خارج كريں اور نہ ہى كفار كا نام ديں اور مسلمانوں ميں سے غالبًا كوئى شخص بهى ممنوع اور كافرانہ انداز سے مدد طلب نہيں كرتا اور نہ ہى توسل كى تمام اقسام بدعت اور ممنوع ہيں.

علمى رد:

مخلوق سے مدد چاہنا اگر ايسے سوال سے ہو كہ مستغاث بہ بهى اسكى قدرت نہيں ركهتا. گويا اس سے يہ مانگنا كہ وه اسكے دكهـ ومصيبت اور بے قرارى كو دور كردے يا اسے رزق عطا كرے تو يہ نا جائز اور شركـ ہے. الله رب العزت كا ارشاد ہے: ﴿وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ﴾ (يونس 106). ترجمہ: يہ حكم رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى وساطت سے امت كو ديا جا رہا ہےاورنہ الله كے سوا ان(بتوں) كى عبادت كريں جونہ تمهيں نفع پنچا سكتے ہيں اور نہ تمهيں نقصان پنچا سكتے ہيں پهر اگر تم نے ايسا كيا تو بے شكـ تم اس وقت ظالموں ميں سے ہو جاؤ گے.

ليكن اگر اس نے كسى كے توسل سے الله تعالى سے تكليف ومصيبت كو دور كرنے كا سوال كيا اور متوسل به سے كوئى چيز نہيں مانگى جيسا كہنے والے كا يہ قول: اے الله اپنے عالى مرتبہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كے وسيلے سے ميرى تكليف دور فرما تو اس صورت ميں وه شخص متوسل به يعنى صاحب وسيلہ سے نہيں بلكہ الله تعالى وحده سے سوال كرنے اور اسى سے مدد چاہنے والا ہے.

فقهاء اسلام كا اس پر اتفاق ہے كہ اس طرح كا توسل شركـ نہيں ہے كيونكہ اسميں الله تعالى سے مدد طلب كى جارہى ہے نہ كہ صاحب وسيلہ سے، ليكن اسكى حلت يا حرمت كے بارے ميں انكا اختلاف اور انكے دو اقوال ہيں-

پہلا قول: انبياء كرام اور صالحين كى زندگيوں ميں انكے وصال كے بعد بهى ان سے توسل مشروع اور جائز ہے، يہ جمہور علماء كا قول ہے، اس پر انكے كئى دلائل ہيں.

انہى ميں سے نبى كريم صلى الله عليہ وسلم سے وارد مأثور دعائيں ہيں(اے الله) ميں، تجهـ سے مانگنے والوں كى خاطر، اور تيرى راه ميں چلنے والوں كے توسل سے تجهـ سے سوال كرتا ہوں.

انہى دعاؤں ميں ايكـ دعا ہے جو آپ صلى الله عليہ وسلم نے فاطمہ بنت اسد كيلئے مانگى تهى كہ(اے الله) ميرى ماں فاطمہ بنت اسد كى مغفرت فرما دے. اور تو اپنے نبى اور مجهـ سے پہلے انبياء كے وسيلے سے اس پر جنت كے دروازے كهول دے بے شكـ تو سب سے زياده رحم فرمانے والا ہے.

اور ان دليلوں ميں سے حضور صلى الله عليہ وسلم كى يہ حديث مباركہ ہے: "من زار قبري وجبت له شفاعتي". جس نے ميرى قبر انور كى زيادت كى اس كيلئے ميرى شفاعت واجب ہوگئى اور اس حديث مباركہ سے بهى انہوں نے استدلال كيا جسميں ہے كہ ايكـ نا بينے نے نبى كريم صلى الله عليہ وسلم كو وسيلہ بنايا تو اسكى بصارت لوٹا دى گئى تهى.

دوسرا قول: الله تعالى كے سوا كسى سے استغاثہ(مدد طلب كرنا) نا جائز ہے انبياء كرام اور صالحين سے انكى زندگى يا انكے وصال كے بعد مدد طلب كرنے ميں توسل ممنوع ہے- يہ ابن تيميہ اور انكے متبعين كى رائے ہے.

انہوں نے الله تعالى كے اس فرمان سے استدلال كيا ہے﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ﴾ (الأحقاف 5). ترجمہ:       اور اس شخص سے بڑهـ كر گمراه كون ہو سكتا ہے جو الله كے سوا ايسے(بتوں) كى عبادت كرتا ہے جو قيامت كے دن تكـ اسے(سوال كا) جواب نہ دے سكيں اور وه(بت) ان كى دعاء وعبادت سے(ہى) بے خبر ہيں.

ڈاكٹر عبد الله فقيہ كى زير نگرانى فتوى مركز:

انكے مركز ميں نبى كريم صلى الله عليہ وسلم كى ذات مباركہ اور آپ صلى الله عليہ وسلم كے طفيل اور وسيلے سے توسل كے مسئلے ميں علماء كرام كے درميان اختلاف ہے.

چنانچہ مذهب مالكى، شافعى اور حنبلى كے اكثر فقهاء اسكو جائز سمجهتے ہيں.([1])

 والله أعلم بالصواب.

                                                                                                     ڈاكٹر محمد فؤاد


[1] ڈاكٹر عبد الله فقيہ كى زير نگرانى فتوى مركز. فتوى نمبر 11669. بعنوان نبى كريم صلى الله عليہ وسلم سے توسل ميں جواز وممانعت. تاريخ الفتوى. 11 رمضان 1422هـ