خلاصہ فتوى:
احترام اور تعظيم کے طور پر قديم تاريخي مقامات کا اہتمام
کرنا شرک کا موجب ہوتا ہے۔
اللجنہ
الدائمہ للبحوث العلميہ والافتاء، کتاب فتاوے و بيانات
مہمہ ۸۲
تبصرہ:
صالحين کے آثار
(قديم اشياء) سے تبرک حاصل کرنا محبت کي دليل ہے اور يہ
ممنوع نہيں ہے اگر يہ معقول حد ميں ہو۔
علمي رد:
يہ ايک معروف
بات ہے جب کوئي انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے تو اس
سے تعلق رکھنے والي ہر چيز سے بھي محبت کرتا ہے، ليکن اس
محبت ميں غلو نھيں کرنا چاہئے، کہ محبوب اپنے درجہ اور
مقام ومرتبے سے بھي بلند ہو جائے، چنانچہ اقوام نے اپنے
انبياء کرام سے محبت کي اور انہيں اللہ کا يا اس سے قريب
درجہ دے ديا، نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم- نے آپ سے
محبت کرنے ميں حد سے بڑھ جانے سے تنبيہ فرمائي ہے:
"لا تطروني كما أطرت النصارى المسيح ابن مريم ولكن قولوا
عبد الله ورسوله"،
ميرے
بارے ميں مبالغہ آرائي نہ کرو جس طرح نصارے نے مسيح بن
مريم عليہ السلام کي کي، ليکن کہو عبدللہ (اللہ کا بندہ)
اور اس کا رسول" يہ حديث شريف امام بخاري نے روايت کي ہے۔
رسول اللہ - صلى
اللہ عليھ وسلم- نے اپنے صحابہ کرام کو اپنے آثار (اپني
اشياء) سے تبرک حاصل کرنے کي اجازت فرمائي، اس سلسلہ ميں
يہ اخبار ہيں:
1۔ سيرت نگار
لکھتے ہيں: صلح حديبيہ کے موقع پر صحابہ کرام رسول اللہ -
صلى اللہ عليھ وسلم- کے اطراف جمع ہو جاتے: اللہ قسم رسول
اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے جب کبھي کھنکار پھينکا ہے
تو وہ اصحاب ميں سے کسي نہ کسي کے ہاتھ ميں گرا ہے، جسے
انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل ليا ہے، جب وہ اپنے اصحاب
کو حکم ديتے ہيں تو وہ اس کي تعميل کے لئے دوڑتے ہيں اور
جب وضو کرتے ہيں تو ان کے وضو کے پاني کے لئے باہم جھگڑنے
کي نوبت پہونچنے لگتي۔ ([1])
۲۔ امام بخاري
روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم- مکہ
کي کشادہ وادي ميں تشريف فرما تھے کہ لوگ رسول اللہ - صلى
اللہ عليھ وسلم- کے دست مبارک سے اپنے چہروں پر مسح کرتے،
اور راوي ابو جحيفہ کہتے ہيں کہ ميں نے آپ - صلى اللہ عليھ
وسلم- کا دست مبارک اپنے چہرہ پر رکھا، يہ برف سے زيادہ
ٹھنڈے اوركستورى سے زيادہ خوشبودار ہيں.
حضرت امام احمد
کي روايت ميں ہے کہ حجہ الوداع کے دن فجر کي نماز کے بعد
لوگ رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم- کي خدمت اقدس ميں
کثير تعداد ميں جمع ہوئے اور وہ ايک دوسرے سے آگے بڑھ رہے
تھے، ابو زيد بن الاسود اپني جواني اور طاقت سے رسول اللہ
- صلى اللہ عليھ وسلم- کے پاس پہونچ گئے اور آپ - صلى
اللہ عليھ وسلم- کا دست مبارک اپنے چہرہ اور سينہ پر رکھا
تو ميں نے اسے سب سے اچھا اور سب سے ٹھنڈا پايا، امام
شوکاني کہتے ہيں کہ ان واقعات ميں اہل فضل کو چھو کر تبرک
حاصل کرنے کي مشروعيت (جائز ہونا) ہے، کيونکہ رسول اللہ -
صلى اللہ عليھ وسلم- نے اسے باقي رکھا ہے اور منع نہيں
فرمايا۔ ([2])
۳۔ امام احمد سے
منقول ہے وہ اپني قميص کي آستين ميں نبي کريم - صلى اللہ
عليھ وسلم- کے موئے مبارک (بال) رکھتے تھے اور انہي موئے
مبارک کي برکت سے المعتصم نے ،، خلق قرآن،، کے فتنہ ميں اس
قميص کو نہيں جلايا، اور اللہ رب العزت نے امام احمد کو حق
پر ثابت قدم رکھا تو امام شافعي نے انکي قميص کو دھوئے
ہوئے پاني سے تبرک حاصل کيا، (يعني قميص کو دھونے کے بعد
کے پاني سے تبرک حاصل کيا)۔([3]
)
اور بہت سي
روايات ہيں کہ صحابہ کرام نماز ميں رسول اللہ - صلى اللہ
عليھ وسلم- کي جائے نماز اور اس رسول اللہ - صلى اللہ
عليھ وسلم- المنبر الشريف پر جس جگہ اپنے دست مبارک
رکھتے تھے وہاں صحابہ کرام اپنے ہاتھ رکھـ کر تبرک حاصل
کرتے تھے، انکے علاوہ ديگر اخبار (روايات) ہيں، امام نووي
نے اس حديث شريف کے سلسلے ميں کہا ہے کہ نبي کريم - صلى
اللہ عليھ وسلم- نے کھجور کو چبا کر نومولود بچہ کے تالو
سے لگائي۔([4])
امام نووي نے
لکھا ہے کہ علماء کھجور کو چبا کر اسے نومولود بچے کے تالو
سے لگانے کے مستحب ہونے پر متفق ہيں، کھجور کے مفہوم ميں
ہر ميٹھي چيز شامل ہے، اور يہ کہ چبا کر بچہ کے تالو ميں
لگانے والا صالحين ميں سے ہو يعني ولي ہو، اور تبرک مرد و
عورت دونوں سے حاصل کيا جا تا ہے۔
صحابہ کرام
رضوان اللہ تعالے اجمعين نبي کريم کے آثار سے برکت حاصل
کيا کرتے تھے، بخاري شريف ميں آيا ہے: رسول اللہ کے دست
مبارک ميں چاندي کي انگوٹھي تهي، آپ - صلى اللہ عليھ
وسلم- کے بعد يہ حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ تعالے عنہ کے
ہاتہ ميں تھي، اسکے بعد حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے ہاتھ ميں
پھر حضرت عثمان رضي اللہ عنہ کے ہاتھ ميں تھي يہان تک کہ
،، اريس،، کنويں ميں گر گئي، اس پر ،، محمد رسول اللہ ،،
نقش تھا، اور بعض روايت ميں ہے کہ يہ حضرت عثمان کے ہاتھـ
ميں ۶ سال تک رہي، اسے کنويں ميں تلاش کيا گيا ليکن کوئي
فائدہ نہيں، اريس کنواں مسجد قباء کے برابر ميں ہے اور بئر
الخاتم يعني انگوٹھي کے کنويں کے نام سے معروف ہے۔
بخاري شريف ميں
يہ بھي آيا ہے کہ حضرت زبير بن العوام کے پاس ايک نيزہ
تھا، جس سے انہوں نے يوم بدر عبيدہ بن سعيد بن العاص کو
مارا تھا، چنانچہ نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم- نے اس
کا سوال کيا تو انہوں نے يہ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- کي
خدمت مين پيش کر ديا، جب آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- اپنے
رفيق اعلے سے جا ملے تو اسے لے ليا، پھر حضرت ابوبکر نے
مانگا انکے بعد حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علي کے
پاس رہا، عنزہ نيزہ کي مانند ہوتا ہے، اسيطرح بخاري شريف
ميں آيا ہے کہ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے وہ درخت نہيں کاٹا
جسکے پاس بيعت رضوان ہوئي تھي، مگر بعد ميں اسکے اور اسکي
جگہ کے بارے ميں لوگوں کے اختلاف کي وجہ ہے۔ ([5])
بيشک اولياء
کرام کے آثار (اشياء) سے برکت حاصل کرنا محبت کي دليل ہے،
اگر معقول حد ميں ہو تو اس ميں کوئي ممانعت نہيں ہے، واللہ
اعلم.
ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم
[1]
الزرقاني علے المواہب، ج ۳ ص
۱۹۲.
[2]
نيل الاوطار ج ۲ ص ۳۲۳۔۳۲۴.
[3]
حياہ الحيوان الکبرے از دميري
ج ۱ ص ۱۰۰۔۱۰۱.
[4]
شرح صحيح مسلم ج ۱۴ ص۱۲۲.
[5]
فتاوے
دارالافتاء المصريہ، الموضوع ۱۲، فضيلہ الشيخ عطيہ
صقر، مئي ۱۹۹۷م۔