اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> قرآن کریم کو چومنے کا حکم  

سوال : قرآن کریم کو چومنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتوی: قرآن کریم تلاوت اور غور و فکر کیلئے نازل کیا گیا ہے اسے چومنے اور بوسہ دینے کے جائز ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

                                                          ا للجنۃ الدائمہ ۔ مجلۃ البحوث ٤٥/٩٦

تبصرہ:

قرآن کریم کو چومنا ،تکریم اور احترام ہے یہ اللہ رب العزت کی نشانیوں کی تعظیم ہے۔ قرآن کریم کو چومنے سے منع کرنے کا کوئی حکم نہیں آیا چنانچہ یہ مباح ہے ۔ اگر چومنے سے مقصود تعظیم و تکریم ہو تو یہ سنت ہے۔     

علمی رد:

شریعت میں جنہیں چومنے یا جن کو بوسہ دینے کا ذکر آیا ہے ان میں حجر اسود کو بوسہ دینا ہے۔ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے اسے چوما اور یہ سنت ہے۔ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے اسے کیوں چوما ؟ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا شخصیتوں اور سرداروں کے ہاتھ چومنے سے مشابہت کے طور پر کیا گیا اور حجر اسود جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ زمین پر اللہ رب العزت کا عہد ہے جس کے ذریعہ اُس کے بندے اُس سے مصافحہ کرتے ہیں چنانچہ اُسے چومنا اللہ رب العزت کی عظمت اور اس کے جلال کو تسلیم کرنا ہے یا اُس کی اطاعت کا اور اُس کے (احکام) کی پابندی کرنے کا اُس کے ساتھ عہد ہے جیسا کہ لوگوں کے درمیان خرید و فروخت ، تعلق و دوستی اور باہمی معاہدہ کیلئے ہوتا ہے۔ یا اسے چومنا کعبہ شریف کے احجار کے بقیہ حصوں کی تعظیم و تکریم ہے۔جس کی تعمیرابوالا نبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم- اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم أجمعین کے ایسے بہت سے آثار وارد ہوئے ہیں جن میں انہوں نے عزت و تکریم اور احترام کے طور پر ایک دوسرے کو چوما اور بوسہ دیا ہے۔ انہیں واقعات میں سے یہ ہیں.

١۔ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے( حضرت )جعفر بن ابی طالب کی حبشہ سے واپسی پر اُن کا خیر مقدم کیا انہيں گلے لگایا اور اُن کی دونوں آنکھوں کے درمیانی حصہ کو چوما ۔     
٢۔ (حضرت) زید بن حارثہ جب (اُم المومنین ) (حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے حجرے میں رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم - صلى الله عليه وسلم- اُٹھـ کر کپڑا کھینچتے ہوئے اُن کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ - صلى الله عليه وسلم- نے انہیں گلے لگایا اور انہیں بوسا دیا۔     
٣۔ جب غازی (مجاہدین) مؤتہ سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے دست اقدس کو بوسہ دیا۔

٤۔ جب اللہ رب العزت نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کی توبہ قبول فرمائی تو انہوں نے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے دست اقدس کو بوسہ دیا۔         
٥۔ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے عبدالقیس کے وفد کو اپنے دست مبارک بلکہ قدم مبارک کا بوسہ لینے کی اجازت دی۔

٦۔ (حضرت) اسید بن حضیر کو بوسہ لینے کی اجازت دی جب کہ انہوں نے لکڑی کی ضرب کا قصاص لینے کیلئے جسم مبارک کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔ اور یہ بوسہ لینا برکت کے طور پر تھا۔     

٧۔ دو یہودی سرکار مدینہ - صلى الله عليه وسلم-) کی خدمت اقد س میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ - صلى الله عليه وسلم- سے نو کھلی ہوئی نشانیوں کے بارے یں دریافت کیا۔ جب آپ - صلى الله عليه وسلم- نے ان دونوں کویہ ٩ نشانیاں بتادیں تو اُن دونوں نے پیارے آقا تاجدار مدینہ - صلى الله عليه وسلم- کے مبارک ہاتھوں اور قدمین شریفین کو بوسہ دیا اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔

٨۔ جب (حضرت) عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ملک شام تشریف لائے تو (حضرت ) ابو عبیدہ نے اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیا ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ (حضرت) ابا عبیدہ نے آپ کے ہاتھوں کو چومنے کا یا بوسہ دینے کا ارادہ کیا تو (حضرت) عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
نے اپنے ہاتھ کھینچ لیئے ۔ سو (حضرت) ابو عبیدہ نے آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے قدموں کا بوسہ لیا۔

٩۔ (حضرت) زید بن ثابت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے علماء کرام کے احترم کے طور پر (حضرت) عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ہاتھوں کا اُس وقت بوسہ لیا جب کہ وہ سواری پر سوار ہورہے تھے۔

چنانچہ (حضرت) زید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اہل بیت رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم- کے احترام کے طور پر اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔         
١٠۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ (حضرت)سلمہ بن الاکواع نے رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-  کے دست حق پر بیعت کی ہے تو انہوں نے (حضرت) سلمہ بن الاکوع کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ [1])

قرآن شریف کو چومنا یا اُس کا بوسہ لینا انہیں سابقہ مفہوم کے ضمن میں آتا ہے۔ اور وہ ہے عزت و تکریم ، تعظیم و توقیر، اجلال و احترام، اطاعت و تقویٰ کا عہد اور یہ شعائر اللہ کی عظیم میں سے ہے۔ سورہ حج کی آیت نمبر ٣٢ میں اللہ کا ارشاد ہے کہ: ﴿ذٰلِکَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ، تر جمہ: اورجو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو بے شک یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ۔اور یہ اللہ رب العزت کی نعمت کے شکر میں سے ہے۔ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٧ میں ہے: ﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزٍیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾، تر جمہ: اوراُس وقت تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا کہ اگر تم میری شکر گزاری کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دو ں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔   

اللہ رب العزت کی نعمتیں بے شمار ہیں جنہیںگننا ممکن نہیں ۔ ان نعمتوں پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا ہم پر واجب ہے۔ شکر گزاری سے اِن میں اضافہ ہوتا ہے۔ یا کم سے کم اللہ انہیں محفوظ رکھتا ہے اور ان میں برکت دیتا ہے۔ کفران نعمت سے یہ ضائع ہونے اور ان سے لطف و اندوز ہونے سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کو چومنے اور اُس کا بوسہ لینے سے منع کرنے کا کوئی حکم وارد نہیں ہوا چنانچہ یہ مباح ہے اور اگر اس سے قرآن کریم کی تعظیم وتوقیر مقصود ہو تو یہ مباح ہے۔ وللہ اعلم.

                                                                                 ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] فتاویٰ دارالفتاء المصریہ الموضوع (٦٣) ، المفتی : فضیلۃ الشیخ مطیہ صقر مئی ١٩٩٧.