خلاصہ فتوی:
صلاہ التصبیح بدعت ہے ، اور اسکی حدیث ثابت نہیں بلکہ
منکر ہے۔
اللجنة
الدائمة
للبحو ث ا لعلمیة والافتا 8/164
تبصرہ:
نماز تسبیح ادا کرنے مین کوئی ممانعت نہیں بلکہ یہ فضیلت
ہے اور اعمال کی فضیلت میں ضعیف احادیث بھی قبول کی جاتی
ہین ۔
علمی رد
:
صلاہ التصبیح کی حدیث امام ابو داوود ،ابن ماجہ ،الطبرانی
اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح مین روایت کی ہے صحابہ کرام کی
جماعت سے بہت سے طرق سے مروی ہے جیسا کہ ابن حجر نے کہا ہے
اسکی مثال عکرمہ ابن عباس رضی اللھ عنہ سے مروی وہ حدیث
ہے جس مین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس بن
عبدالمطلب سے فرمایا:
"إِنْ
اسْتَطَعْتَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً
فَافْعَلْ فَإِنْ
لَمْ
تَسْتَطِعْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ
تَفْعَلْ فَفِي
كُلِّ
شَهْرٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ
فَفِي عُمُرِكَ مَرَّةً"۔
اگر قدرت رکھتے ہو تو ہر روز ایک مرتبہ اگر اسکی طاقت
نہیں تو ہر جمعہ کو ایک مرتبہ ،اگر یہ بھی نہ کر سکوتو
سال مین ایک مرتبہ اگر یہ بھی نہ کر سکوتو توزندگی مین
ایک مرتبہ [اسے ضرور]ادا کرو" اس حدیث کو حفاظ کی ایک
جماعت نے صحیح قرار دیا۔ ابو الفرج بن جو زی نے نماز
تسبیح کی احادیث اور انکی اسناد کو بیان کرنے کے بعد انہیں
ضعیف قرار دیتے ہوئے انكا ضعف بیان کی ہے ،اور امام نووی
نےکہا: ہمارے بہت سے(شافعی) ائمہ کی رائے میں نماز تسبیح
مستحب ھے ،انہیں میں سے امام بغوی نے حضرت عبداللھ بن
مبارک رحمةالله عليه کے بارے مین نقل کیا ہے کہ وہ اس
نماز تسبیح کو بہت پسند کرتے تھے .اور ہر وقت اسکا معمول
بنانا مستحب ہے،اور اس سے غفلت نہ کی جائے۔
اور علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ نماز مشروع
نہیں ھے کیونکہ اسمین بغیر کسی معتمد دلیل کے نماز کے نظام
تبدیلی ميں واقع ہوتی ہے۔
الغرض اس میں علماء کرام کے اختلاف کے باوجود جو اسکو ادا
کرے اسکا انکار نہیں کیونکہ جسمیں ہے انکا انکار نہیں کیا
جاتا ہے پھر یہ تو فضائل مین سے ہے اور جیسا کہ کثیر علماء
نے فرمایا ہے کہ اعمال کی فضیلت مین ضعیف احادیث بھی قبول
کی جاتی ہيں۔
اور یہ نماز کی قسم ہے اسمیں اللھ تعالی کا ذکر ہے اور
ایسی چیزوں پر مشتمل نہیں جو ،مقررکردہ اصولوں کے خلاف ہو
،چنانچہ یہ بھی نفل نماز کی مانند ہے ،جس مین تسبیحات
زیادہ ہین اور صبح و شام اللھ تعالی کی تسبیح کرنے کا حکم
ہے اور نماز ایک عمدہ موضوع ہے ۔۔واللھ اعلم ۔
ڈاکٹر احمد
عید