سوال :
الفاظ سے ادا کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
خلاصہ
فتویٰ:
نیت کی الفاظ سے ادائیگی بدعت ہے کیونکہ یہ رسول اللہ- صلى
الله عليه وسلم-اورآپ کے اصحاب سے منقول نہیں ہے ۔
الشیخ ابن باز۔ فتاویٰ المرآۃص٢٩
تبصرہ:
شافعیوں
کا کہنا ہے کہ نیت کو زبان سے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں
بلکہ اسے سنت بتایا جاتا ہے اس میں زبان دل کی معاون ہوتی
ہے ۔اگر زبان سے نیت کے الفاظ نہ کہیں جائیں تو بھی نماز
صحیح ہوگی ۔
علمی رد:
نیت کا
مفہوم قصد ، ارادہ ہے اور قصد ایک قلبی عمل ہے ۔نماز یا
دوسری عبادات میں اسے زبان سے ادا کرنا واجب نہیں ہے
۔اورنماز کے قبول ہونے کا انحصار نیت کو زبان سے آہستہ یا
آواز سے ادا کرنے پر نہیں ہےشوافع کا کہنا ہے کہ نیت کو
الفاظ سے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیںبلکہ اسے سنت بتایا
جاتا ہے تاکہ زبان دل کی معاون ہو۔نیت کوزبان سے ادا نہ
کرنے کے حالت میں بھی نماز صحیح اور مقبول ہوتی ہے اللہ رب
العزت نے چاہا بشرطیکہ ظاہری طور پر اس کی ادائیگی کے ساتھ
ساتھ خشوع اور خضوع اور اخلاص سے قبولیت کے تمام عوامل بھی
ہوں۔
مالکیوں
کا کہنا ہے کہ نیت کے الفاظ کی ادائیگی خلاف اولیٰ ہے ۔
سوائے ان لوگوں کے جنہیں وسوسے آتے ہوں وسوسے دور کرنے کے
لئے یہ سنت ہے ۔
احناف کا کہنا ہے کے نیت کی الفاظ میں ادائیگی بدعت ہے یہ
رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-اور آپ - صلى الله عليه
وسلم- کے صحابہ سے ثابت نہیںلیکن وسوسوں کودور کرنے کے لئے
الفاظ سے ادائیگی بہتر ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مسئلہ
علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے (اس میں اختلاف ہے )ہر رائے
کے لئے دلیل ہے اورحکم جیسا کہ بتایا گیا ہے یہ بدعت ہے جو
مسلم نہیں ہے ۔ علمائے افاضل نے اسے وسوسوں جیسے بعض حالات
میں سنت اور مستحب بتایا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
نیت کی زبان سے ادائیگی سے نقصان تو نہیں البتہ فائدہ پہنچ
سکتا ہے۔
ڈاکٹر
عبداللہ لفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:
بعض اہل
علم نیت کی الفاظ میں ادائیگی کو بدعت بتاتے ہیں کچھ اہل
علم اسے مستحب قرار دیتے ہیں انہیں میں وہ بھی ہیں جوان
لوگوں کے لئے مستحب کہتے ہیں جنہیں وسوسے آتے ہیں۔([1])
واللہ اعلم۔
ڈاکٹر احمد عید
[1]
ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ:
فتویٰ نمبر٥٨٢١٠تاریخ فتویٰ١٣ ذوالحج١٤٢٥ھ۔