اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب چہارم طہارت اور فطرى سنتيں --> داڑھی منڈوانا اور لباس کو چھوٹا کرنا  

سوال : اس شخص کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جو یہ کہتا ہوں کہ داڑھی منڈوانا اور لباس کو چھوٹا کرنا سطحی امور میں سے ہےں۔  

خلاصہ فتویٰ: داڑھی چھوڑنا(رکھنا) متفقہ طور پر واجب ہے اورلباس کو طول دینا(ٹخنوں سے نیچے تک ہونا)خواہ یہ خودپسندی اورتکبرکے طورپرہو یا کسی اور مقصد سے ،حرام ہے ۔

                                                                    الشیخ ابن باز مجلۃ الدعوۃ العدد١٦٠٧

 

تبصرہ:

داڑھی کو موزوں شکل دینا اسے درست کرنا اور اس کے کچھ بالوں کو ترشوانہ تمام ائمہ کے نزدیک جائز ہے یہ سنت یا واجب ہوسکتا ہے۔ داڑھی مکمل طور پر منڈوانے کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہےں۔ اسلاف میں سے بعض نے اسے حرام بتایا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار نہيں ديا ہے.

 لباس کا طویل ہونا (ٹخنوں سے نیچے ہونا) اگر خودپسندی اور تکبرکے طور پر ہوتو حرام اورخودپسندی اور تکبر کے طور پر نہ ہوتو حرام نہیں ہے۔    

علمی رد:

سنن الترمذی میں حدیث شریف جو حضرت عمر وبن شعیب سے انہوںنے اپنے والد اورانہوں نے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- اپنی داڑھی مبارکہ کے طول عرض میں سے کچھ ترشواتے تھے ([1]

صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت ہے کہ وہ اپنی داڑھی کو درست کرتے (یعنی اسے موزوں شکل دیتے تھے ) اور اس میں سے کچھ ترشواتے تھے ([2]) اور کسی کو بھی صحابہ اکرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ وہ تساہل پسند یا سنت کے مخالف تھے ۔داڑھی چھوڑنے کے بارے میں علماء میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یاسنت ہے ([3]

شیخ البانی نے داڑھی ترشوانے کے بارے میں کئی صحابہ کرام کے آثار کا ذکر کرنے کے بعداپنی تحقیق میں کہا میرا خیال ہے کہ بعض اسلاف اور ائمہ کی انہیں نصوص کی اہمیت کے پیش نظر،میںکچھ وسعت کے ساتھ اسے پیش کروں کیوں کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عام انداز''واعفو اللحی''(داڑھی چھوڑ دو)کے خلاف ہے اور انہوں نے اس قاعدے کی طرف توجہ نہیں کی کہ اگر کوئی عام شخص اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اس سے مقصود ہی نہیں ہے ([4]) جہاں تک لباس کو لمبا کرنے کے حکم کا تعلق ہے توامام بخاری نے تعلیق کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کھاؤ اور پیو اور پہنوں اورصدقہ دو اسراف اور تکبر نہ کرو۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو بات ممنوع ہے وہ درحقیقت اسراف اور تکبر ہے اور اگر یہ دونوں نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں (حضرت)ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- اگر میں گرہ نہ لگاؤ ںتو میرا تہبند ڈھیلا ہو جاتا ہے چنانچہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر اور خود پسندی کرتے ہیںیہ بات یعنی تکبر کرنا مذموم (ناپسندیدہ) ہے خواہ یہ لباس ہی سے ہو۔او جو کوئی اللہ رب العزت کی نعمت کے اظہار کے مقصد سے اچھا لباس پہنتا ہے اسکی تیاری کرتا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا ہے اور جس کے پاس ایسا لباس نہ ہواسے حقیر نہ سمجھتا ہو تو اچھا لباس پہننا اس کے لئے مباح ہے حتیٰ کہ لباس انتہائی نفیس ہو تو بھی اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ"، تر جمہ: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بڑائی (تکبر ) ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔چنانچہ ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کے اسکا لبا س اچھا ہو اسکی پاپوش (جوتی ) اچھی ہو تو آ پ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْجَمَالَ وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ ‏‏بَطَرَ الْحَقَّ‏ ‏وَغَمَصَ النَّاسَ''، تر جمہ: اللہ رب العزت جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے ''کبر'' ا ترانا غرور اورتکبر کرناہے اور ''غمط'' لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ ([5])    

                                                                                  ڈاکٹر احمد عید


[1] سنن الترمذی:٢٩٨٨اورکہا : یہ حدیث غریب ہے میں نے امام بخاری سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ عمر بن ھارون جنہوں نے حدیث بیان کی ہے ان کی بیان کردہ کسی اور حدیث سے میں واقف نہیںاور بنیادی طور پر ان کی کوئی سند نہیں ،یا کہا انہوں نے صرف یہی حدیث شریف بیان کی ہے جس کا مفہوم ہے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- اپنی لحیہ مبارکہ کے طول عرض میں سے ترشواتے تھے ۔یہ بات ہم صرف عمر بن ھارون کی حدیث شریف سے جانتے ہیں اوروہ حسن الرأی ہے یعنی ان کے بارے میں اچھی رائے ہے۔ابوعیسی کہتے ہیں میں نے قتیبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ھارون صاحب حدیث تھے ۔اورگویا کہ وہ کہتے تھے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے ابن حبان نے اس حدیث کوصحیح بتایا ہے دیکھئے : تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج٩/٣٧٦.        

[2] بخاری شریف میں( حضرت )عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنی لحیہ میں سے ترشوانے سے متعلق حدیث شریف ابوداؤد نے (حضرت) جابر سے روایت کی ہے انہوں نے کہا ہم حج اورعمرہ میں داڑھی کو ترشواتے تھے ان کے علاوہ دوسرے ایام میں چھوڑدیا کرتے تھے (یعنی ترشواتے نہیں تھے )منصف میں عبدالرزاق نے (٦/١٠٨)سماک بن یزید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا (حضرت) علی اپنی لحیہ مبارکہ کے سامنے کے حصے سے ترشواتے تھے ابی زرعہ سے روایت ہے انہوں نے کہا (حضرت) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور ایک مٹھی سے زیادہ حصے کو ترشوادیتے تھے عطا بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا وہ داڑھی کوچھوڑنا پسند کرتے تھے سوائے حج اور عمرہ کے اور ابراہیم داڑھی میں تعارض کرنے والے بالوں (اطراف کے بالوں کو)ترشواتے تھے ابن طاؤوس نے اپنے والد سے روایت کی ہے وہ اپنی داڑھی کے غیر ضروری حصے کو ترشواتے تھے ۔حضرت امام حسن سے روایت ہے :انہوں نے کہا :وہ داڑھی کے ایک مٹھی سے زائد حصے کو ترشوانے کی اجازت دیتے اور قاسم جب اپنا سر منڈواتے تو اپنی داڑھی اورمونچھوں کو بھی ترشواتے تھے ۔حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم داڑھی لمبائی میں صرف حج اور عمرہ میں ترشواتے تھے ابی ہلال سے روایت ہے انہوں نے کہا :میں نے (حضرت)امام حسن اور ابن سیرین سے دریافت کیا توان دونوں نے کہا :اپنی داڑھی کی لمبائی کے کچھ حصہ کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں(حضرت) ابراہیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی داڑھیوں میں خوشبو لگاتے اور اطراف میں سے ترشواتے تھے۔

[3] شوافع کی یہاں معتمد بات یہ ہے کہ داڑھی کو چھوڑنا سنت اور اسے منڈوانا مکروہ ہے ۔شوافع کی حنابلہ کے یہاں بھی دوروایات ہےں سنت اور واجب مالکیہ نے داڑھی کی حد مقرر نہیں کی ہے ان کے یہاں اسے چھوڑنے یا چھوٹی کرانے پر مسئلہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ ان کے یہاں داڑھی اتنی چھوڑنا لازم ہے کے یہ نہ تو بے ہنگم ہو اور نہ ہی بہت چھوٹی ہو اس کے لئے کوئی حد نہیں احناف کا کہنا ہے کہ ایک مٹھی سے کم داڑھی کاٹنا جائز نہیں اور ایک مٹھی سے زیادہ حصہ کو کاٹنا واجب یا سنت ہے ۔    

[4] الشیخ ناصر الدین الابانی :ـالسسلۃ الضعیفۃج ٥ص ٣٧٥اسکے بعد۔        

[5] مختلف مسالک کے علماء کی رائے یہ ہے کہ کپڑوں کا غیر ضروری لمبا ہونا اگر یہ تکبر اور خودپسندی کے طور پر ہو تو حرام ہے اوریہ تکبر اوربڑائی کے طورپرنہ ہو توحرام نہیں،فقہ حنفی کی کتاب فتاوی ہند میں ہے کہ مرد کا اپنی چادر یعنی تہبند کو ٹخنوں سے نیچے تک لمبا کرنااگر غرور اور تکبر کی وجہ سے نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے المنتقی شرح الموطأ(مالکی ) میں ہے کہ جس نے طویل لمباس گھسیٹا یااس کے پاس دوسرا لباس نہ ہو یا کوئی عذر ہو تو اس کے لئے وعید نہیں ہے ۔ الحسن بن ابی الحسن البصری نے ابی بکر سے روایت کی ہے کہ سورج گہن ہو اس وقت ہم رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے پاس تھے آپ - صلى الله عليه وسلم- کھڑے ہوئے اور تیزی سے اپنا لباس کھینچتے ہوئے مسجد تشریف لائے ۔المجموع از اللنووی (شافعی )میں ہے لباس۔تہبند اور شلوار کو تکبر اور خود پسندی کے طور پر ٹخنوں تک لمبا کرنا حرام ہے اور تکبر نہ کرنے والوں کے لئے مکروہ ہے کشاف القناع (حنبلی ):امام احمد نے کہا تہبند کا گھسیٹنااورنماز میں چادرکو دراز کرنا اگر خود پسندی اورتکبر کے طور پر نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔