سوال :
بالوں کو سیاہ رنگنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
خلاصہ فتویٰ:
بالوں کوسیاہ رنگنے کی ممانعت ہے اس وجہ سے یہ جائز نہیں۔
الشیخ ابن عثیمین مجموع فتاوی ١١/123
تبصرہ:
بالوں کو
سیاہ رنگنے کا مسئلہ اختلافی ہے بعض کے نزدیک یہ ممنوعہ بعض کے
نزدیک مکروہ اور بعض کے نزدیک مباح (جائز )ہے ۔
علمی رد:
سرور کونین -
صلى الله عليه وسلم- کی حدیث شریف ہے: "مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ
فَلْيُكْرِمْهُ"،
تر جمہ:
جس کے بال ہوں اسے چاہئے کہ وہ ان کی عزت کرے (انہیں سنوارے)۔
یہ حدیث شریف
امام ابوداؤد نے روایت کی ہے ان کے علاوہ دیگر احادیث شریف ہیں
جن میں سے بعض صحیح ہے مرد اور عورت کے لئے عزت وتکریم کی کئی
صورتیں ہیںہر وہ بات جو انکے مناسب اور ان کے لائق ہو عزت
وتکریم ہے مثال کے طور پر ۔ ترجیل،بالوں میں کنگھی کرنا ، تیل
لگانا ہے اسی طرح بڑھاپے کو چھپانے کے لئے انہیں رنگنا بھی ہے۔
علماء اکرام نے بالوں کو سیاہ رنگنے کے بارے میں گفتگو کی ہے
چنانچہ اکثر نے اس سے منع کیا ہے لیکن ان کے دلائل مردوں اور
اُن سن رسیدہ خواتین پر مرکوز ہےں۔ جو اپنی شادی کی خواہش میں
جوان دیکھائی دینے کی خواہاں ہوتی ہیں۔جہاں تک شادی شدہ عورت
کا تعلق ہے جس کا شوہر بیوی کے بالوں سے اچھی طرح واقف ہے اس
کا بالوں کو رنگنے میں کوئی حرج نہیں جو اسکے اور اسکے شوہر کے
لائق ہو۔یہی نہیں بلکہ ابن الجوزی نے تو مردوں کو بھی اس کی
اجازت دی ہے اور اسکی ممانعت کے بارے میں جو کچھ واردہوا ہے
اسے فریب اور اطاعت کی طرف عدم توجہی پر محمول کیا ہے ۔جب کے
سن رسیدہ انسان کو اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کے طور پر اس کی
اطاعت کرنی چاہئے ۔حنابلہ کا خیال ہے کہ بالوں کی سفیدی کو
تبدیل کرنے کے لئے یہ سنت ہے اور سیاہ رنگنا مکروہ ہے اسحاق بن
راھویہ نے عورت کو اس کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لئے
بناؤ سنگھار کرسکتی ہے اور یہ جنگ کے لئے مکروہ نہیں ہے شوافع
کے نزدیک مردوعورت دونوں کے لئے سفید بالوں پر زرد یا سرخ رنگ
کا خضاب لگانا مستحب ہے لیکن سیاہ خضاب لگانا حرام ہے ختم ۔
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالوں کو سیاہ
رنگنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے بعض نے اس سے
روکا ہے بعض کے نزدیک یہ مباح ہے اور بعض کے نزدیک یہ مکروہ
ہے۔ واللہ اعلم۔
ڈاکٹر
عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:
مرد اور عورت
دونوں کے لئے بالوں کو سوائے سیاہ رنگ کے کسی بھی رنگ میں
رنگنے کی ممانعت نہیں ہے اہل علم میں سے بعض نے اسے مکروہ اور
بعض نے حرام بتایا ہے غالبا یہ آخری رائے راجح ہے ([1])۔
ڈاکٹر
احمد عید
[1]
ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ:
٢١٢٩٦تاریخ الفتویٰ ١١جمادی الثانیہ ١٤٢٣ ھ