اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب چہارم طہارت اور فطرى سنتيں --> کتے رکھنے کا حكم  

سوال : ایسے کتوں کی پرورش سے متعلق دریافت کیا گیا جو شکار کے مقصد سے نہیں ہے، اور اگر شکار کرلے تو اس کے شکار کا حکم کیا ہے؟  

خلاصہ فتوی : جواب دیا گیا کتے رکھنا ناجائز ہے ، سوائے اسكے كہ وہ شکار یا کھیتی یا مویشیوں کی حفاظت کے لئے ہو، جہاں تک اس کی قیمت کی بات ہے تو حضرت نبی کریم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے.

                                                                     الشیخ ابن عثیمین، نور علی الدرب ص٧٤


تبصرہ

 فائدہ مند کتوں کو رکھنا جائز ہے لیکن بے فائدہ کتے کو رکھنا ناجائز ہے.
کتوں کی تجارت امام مالک کے نزدیک جائز ہے ،اور اگر ضرر رساں نہ ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی جائز ہے.

علمی رد: 

 امام مسلم نے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ ». وفي رواية « إِلاَّ كَلْبَ زَرْعٍ أَوْ غَنَمٍ أَوْ صَيْدٍ"، اگر شکار یا مویشی کے کتے کے سوا کوئی کتا رکھا تو اس کے ثواب میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوجائیں گے'' اور ایک دوسری روایت میں ہے'' کھیتی یا بکریوںیا شکار کے کتے کے سوا '' اس روایت سے بے فائدہ کتے رکھنے کی حرمت واضح ہے اور احادیث مبارکہ میں خود فائدہ مند کتوں کو اس حکم سے مستثنی رکھا گیا ہے جن میں شکاری اور حفاظتی کتے شامل ہیں خواہ زراعت کی حفاظت کے لئے ہوں یا مویشی کی حفاظت کے لئے ہوں، اور اسی پر گھروں اور گلیوں کی حفاظت کے لئے رکھے گئے کتے اور پولیس کے کتے بھی قیاس کئے جائیں گے.

جہاں تک ان کی تجارت کی بات ہے، تو امام مسلم نے ابو مسعود انصاری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ، اورزنا کی کمائی،اور کہانت کے پیسے سے منع فرمایاہے، لیکن امام شافعی کے نزدیک کتے کی تجارت درست نہیں برخلاف امام مالک کے کیونکہ انہوں نے اس کی تجارت کو جائز قرار دیا ہے بلکہ سحنون نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی کمائی سے حج بھی کرسکتا ہے اور امام ابو حنیفہ نے کاٹنے والے کتے کی استثنا کے ساتھ اس کی تجارت کو جائز قرار دیا ہے.([1])
اس کی دلیل امام نسائی کی روایت کردہ حدیث پاک ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا سوائے شکاری کتے کے، لیکن اس روایت کی سند میں کلام ہے.

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ بقول: سحنون امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کتے کی تجارت درست ہے.

 اسی طرح اگر ضرر رساں نہ ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی جائز ہے لیکن امام شافعی کےنزدیک بالکل ناجائز ہے. والله أعلم.([2])              

                                                                   ڈاكٹر انس ابو شادی


[1] شرح صحیح مسلم ج ١٠ص٢٣٢.

[2] فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر٥٩المفتی :فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر، مئی ١٩٩٧. مضمون نمبر(١٠٦٧)المفتی: فضیلۃ الشیخ احمد ھریدی٢٦ اکٹوبر١٩٦٨م.