اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب پنجم نماز --> اذان کے بعد حضور نبی کریم – صلی اللہ عليہ و سلم – پر درود پاک ( الصلاة ) پڑھنے كا حكم  

سوال : اذان کے بعد حضور نبی کریم – صلی اللہ عليہ و سلم – پر درود پاک ( الصلاة ) پڑھنے کے حکم کے بارے ميں سوال کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی:  اذان کے بعد کسی ذکر کا بيان نہ ہونے كى وجہ سے مؤذن اذان کے بعد بآواز بلند حضور نبی کریم – صلی اللہ عليہ و سلم – پر درود پاک ( الصلاة )  نہ پڑهے۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء 6 /101 – 102

تبصرہ:

اذان کے بعد حضور نبی کریم – صلی اللہ عليہ و سلم – پر درود پاک ( الصلاة ) پڑھنا ممنوع نہيں کيونکہ ايسی کوئی حديث مبارکہ نہيں جو اس سے منع کرے ، اور عام نصوص ( قرآن و حديث ) بھی اسکے مخالف نہيں ۔

علمی رد:

تاريخ ميں آيا ہے کہ حضرت بلال – رضی اللہ عنہ – جب اذان سے فارغ ہوتے تو وہ حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – کے دراقدس پر کھڑے ہو کر کہتے تھے ( السلام عليك يا رسول اللہ ) اے اللہ تعالی کے رسول آپ پر سلام ہو ، اور  غالبا يہ کہتے: يا رسول اللہ ميرے ماں باپ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – پر فدا ہوں ۔ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – پر سلام ہو ۔ آپ نماز کيلئے تشريف لائيے آپ نماز کيلئے تشريف لائيے ۔ يا رسول اللہ آپ پر سلام ہو[1] ۔

جب حضرت ابو بکر صديق – رضی اللہ عنہ – مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے ، مؤذن سعد القرظی ( اذان کے بعد ) آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہتے اے رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – کے خليفہ آپ پر سلامتی ، اللہ تعالی کی رحمت اور اسکی برکتيں ہوں ، آئيے نماز کی طرف آئيے نماز کی طرف ، اے رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – کے خليفہ ۔

جب حضرت عمر فاروق – رضی اللہ عنہ – نے عہدہ خلافت سنبھالا ، تو حضرت سعد القرظی (اذان کے بعد ) آپ – رضی اللہ عنہ – کے دروازے پر کھڑے ہوکر ايسے ہی کلمات کہتے جيسے حضرت ابو بکر صديق – رضی اللہ عنہ – کيلئے کہتے تھے ۔ جب حضرت عمر – رضی اللہ عنہ – نے لوگوں سےفرمايا کہ تم مؤمن ہو اور میں تمھارا امير ہوں چنانچہ آپ کو امير المؤمنين کا لقب ديا گيا تو مؤذن نے بھی اذان کے بعد " السلام عليك يا امير المومنين " کہنا شروع کر ديا۔

جب حضرت عثمان بن عفان – رضی اللہ عنہ – مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو اسی پر عمل ہوتا رہا اور مؤذنين اسی پر کابند رہے کہ جب وہ اذان کہتے تو خلفـاء پر سلام بھيجتے ، پھر وہ سلام کے بعد نماز کيلئے اقامت کہتے ۔ تو خليفہ يا امير تشريف لاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے ۔ بنی اميہ اور بنی عباس کے عہدوں ميں مصر ، شام ، حجاز اور ديگر تمام علاقوں ميں اسی طرح عمل جاری رہا ۔

جب مصر ميں فاطمی بر سر اقتدار آئے تو جوھر الصقلی نے حکم ديا کہ اذان آل بيت کے عمل پر ہو ۔ تو اس ميں " حی علی خير العمل " کے الفاظ اور کلمات کا اضافہ کيا گيا ، اور مؤذن اذان کے بعد محل کے دروازے پر کھڑا ہوتا اور کہتا : السلام عليك يا امير المومنین ، اور شايد اسکے بعد يہ کہتا تھا " الصلاة و السلام عليك يا امير المومنين و علی آبائك الطاھرين " ، اے امير المومنين آپ پر اور آپ کے طاہر آباؤ اجداد پر صلاہ اور سلام ہو ۔

جب فاطمی حکومت ختم ہوئی اور ايوبی حکومت قائم ہوئی تو صلاح الدين ايوبی نے انکے تمام شعائر ختم کر ديئے ۔ اور خليفہ پر سلام کو حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – پر سلام پھيجنے ميں بدل ديا ۔ چنانچہ ( اس زمانے ميں ) مؤذن اذان کے بعد کہتا : السلام عليك يا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتھ ، اور غالبا وہ کہتا : الصلاة و السلام ۔ اور يہ عمل صرف ايوان حکومت تک محدود تھا يعنی شاہی مسجد اور اسی طرح كى دوسری مسجدوں ميں يہی عمل تھا آخری ايوبی بادشاہ الملک صالح نجم الدين ايوب نے اپنے زمانۂ حکومت ميں مصر اور قاہرہ کے تمام مؤذنوں کو حکم ديا کہ وہ اذان کے بعد منبروں پر " الصلاة و السلام عليك يا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتھ " بآواز بلند پڑھيں اور اسے عشاء کی آذان تک محدود رکھيں ۔ اور منصور حاجی بن اشرف شعبان بن حسين بن ناصر محمد بن المنصور قلاوون کے زمانے تک اسی پر عمل جاری رہا ۔ اور اس نے حکم ديا کہ مغرب کی اذان کے علاوہ فجر اور دوسری تمام آذانوں کے بعد بھی يہی (الصلاة و السلام عليك يا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتھ" بلند آواز سے ) پڑھا جائے اور مؤذن آجتک بدستور اسی پر عمل پيرا ہيں [2] ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد حضور نبی کريم – صلی اللہ عليہ وسلم – پر الصلاة و السلام پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں بلکہ ثواب ہے اور بعد کے لوگوں نے اسے لوگوں کو وقت نماز کے شروع ہونے کی اطلاع دينے ميں مبالغہ کرنے ميں مستحسن قرار ديا ، اور جس چيز کو مسلمان بہتر سمجھيں وہ اللہ تعالی کے نزديک بھی عمدہ اور بہتر ہے ۔

اور کتاب الفقھ علی المذاھب الاربعھ ( چاروں مذھبوں کی فقھ کی کتاب ) ميں آيا ہے کہ بعض متأخرين نے اذان کے بعد اور اس سے پہلے کچھـ امور کا اضافہ کيا ہے انھيں ميں سے رات کو اذان کے بعد ( الصلاہ علی النبی – صلی اللہ عليہ و سلم - ) اذان سے پہلے تسبيحات اور مناجات کرنا و غيرہ ۔ اور يہ بدعت حسنہ ہے کيونکہ احاديث مبارکہ ميں ايسی کوئی بات نہيں جو اس سے منع کرے اور عمومی نصوص انہيں کا تقاضا کرتی ہيں ۔

اور کسی بھی ( نئی ) چيز پر بدعت ( سيئہ ) کا حکم لگانے ميں جلدی نہيں کرنی چاہئے اور واجب تو يہ ہے کہ ( حکم لگانے سے پہلے ) توقف ، تحقيق اور گہرائی سے غور و خوض اور مطالعہ کيا جائے تاکہ مسلمانوں ميں کسی ايسے فروعی مسئلہ کے شرعی حکم کی وجہ سے تفرقہ پيدا نہ ہو جسکے بارے ميں قرون اولی سے ہی مشاہير فقھاء کی آراء مختلف ہيں[3]. اللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹر احمد عيد


[1] التراتيب الاداريھ ، ج 1 / 75 از الکتانی ۔

[2] مجلھ الاسلام جلد دوم ۔ شمارہ 41 ۔ از قلم حسن محمد قاسم ۔

[3] مجلھ الاسلام کی جلد دوم ۔ شمارہ 48 ميں شيخ عبدالرحمن خليفہ کے مقالے کو ديکھے ، اسی طرح فتاوی دار الافتاء المصريھ ۔ موضوع (177) مفتی فضيلھ شيخ عطيہ صقر ۔ مئی  1997۔