اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ششم باجماعت نماز اور امامت --> امام کيلئے نماز کو طويل کرنے کے قواعد  

سوال : با جماعت نماز کو طويل کرنے کے قواعد کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی: با جماعت نماز طويل کرنيکا قاعدہ يہ ہے کہ سنت کی اتباع کی جائے نہ کہ مقتديوں کی خواہش کی ۔

الشيخ ابن عثيمين ۔ کتاب الدعوہ (5) 2/90 – 91

تبصرہ:

نماز کی طوالت کا مسألہ لوگوں کی قوت برداشت پر منحصر ہے نہ کہ امام کی خواہش پر کہ وہ جس سنت کا چاہيے انتخاب کرے ، جسميں طويل اور مختصر نماز ميں ، ہر ايک کيلئے مناسب اورمختلف پيمانے ہيں ۔

علمی رد:

امام نووی کی کتاب " الاذکار " ميں آيا ہے : سنت يہ ہيکہ نماز فجر اور ظہر ميں سورة ق اور الحجرات جيسی طوال مفصل ([1]) طويل سورتيں ، عصر اور عشاء ميں سورة نبأ سے الضحی تک درميانی سورتيں اور مغرب ميں سورة الضحی کے بعد سے الناس تک کی چھوٹی سورتوں ميں سے کوئی سورت پڑھی جائے۔

علماء کرام نے فرمايا : امام کيلئے مستحب يہ ہے کہ وہ قرات قرآن اور تسبيحات مختصر پڑھے اور مستحب کو بھی بطريق کمال ادا نہ کرے ، اور اکيلا نماز ادا کرنے والا ہے تو طويل اور درميانی سورتيں ، اور رکوع و سجود ميں طويل تسبيحات پڑھے۔

حضرت ابو ھريرہ – رضی اللہ عنہ – سے مروی حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – کی حديث مبارکہ ہے کہ :"اذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير"([2]

اگر تم ميں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہيے کہ وہ اسے مختصر کرے کيونکہ ان ميں کوئی بيمار ، ناتوان اور بوڑھے بھی ہيں اور جب اکيلا اپنے لئے نماز ادا کرے تو جتنا چاہے اسے لمبا کرے.

نماز کو لمبا کرنا مکروہ ہے ، اگر وہ ( امام ) ايسی قوم کو نماز پڑھائے جو کہ محصور ہے اور امام کو معلوم ہے کہ وہ طويل نماز کو ترجيح ديتے ہيں تو اس حالت ميں مگر وہ نہيں بلکہ مستحب ہے۔

کيونکہ ممانعت انکے لئے ہےتو جب وہ اس پر راضی ہيں تو پھر مستحب ہے ، اور بعض اوقات نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – کی طويل قراءت کے بارے ميں صحيح احاديث مبارکہ کو اسی پر محمول کيا جائے گا۔

اور اگر امام انکے حال سے نا واقف يا ان ميں وہ بھی ہيں جو لمبی قراءت کو نا پسند کرتے ہيں اور وہ بھی ہيں جو پسند کرتے ہيں تو طويل نہ کرے ، اور صحيح احاديث مبارکہ اسی کی تائيد کرتی ہيں ۔

اور انہی ميں سے ايک حديث حضرت انس – رضی اللہ عنہ – سے مروی ہے کہ نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – نے فرمايا: "إنی لأقوم فی الصلاة أريد أن أطول فيھا فاسمع بکاء الصبی ".

ميں جب نماز ميں کھڑا ہوتا ہوں تو ميں اسے لمبا کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر بچے کا رونا سنتا ہوں تو ميں اسکی ماں پر مشقت کو نا پسند کرتے ہوئے اپنی نماز کو مختصر کر ديتا ہوں ( اسے بخاری اور مسلم نے روايت کيا ہے ) اور اگر وہ ( لوگ ) طويل نماز کو پسند کرتے ہيں مگر مسجد ايسی جگہ يہ ہے جہاں لوگ امام کے نماز شروع کرنے کے بعد بھی شامل ہوتے ہيں تو پھر نماز کو طويل نہ کرے ([3]

نماز کو طويل کرنے کا معاملہ لوگوں کی برداشت پر منحصر ہے ، امام کی مرضی پر نہيں کہ وہ جس سنت کا چاہيے انتخاب کرے جس ميں طويل نماز اور مختصر نماز کے ، ہر ايک کيلئے مناسب اور مختلف پيمانے ہيں ([4]).

سنت ميں سورہ اعراف کی تلاوت کرنا وارد ہے([5]) اور اسی طرح چھوٹی سورتوں کی تلاوت بھی سنت ہے  [6]  اور يہ امام کی مرضی پر منحصر نہيں کہ وہ چاہيے تو سورہ اعراف پڑھے اور چاہيے تو چھوٹی سورتيں پڑھے بلکہ يہ مسئلہ لوگوں کی برداشت پر منحصر ہے۔ اللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹر احمد عيد


[1] مفصل : سورة ق اور الحجرات سے ليکر آخر تک قرآن کريم کی تمام سورتوں کو مفصل کہا جاتا ہے اسکی تين اقسام ہيں ۔ طويل : سورة ق سے سورة عم ( نبأ ) تک ، درميانی : سورة نبأ سے سورة الضحی تک ۔ جبکہ چھوٹی سورتيں الضحی سے الناس تک ہيں۔

[2] امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابو ھريرہ کے علاوہ صحابہ کرام کی ايک جماعت سے بھی يہ حديث روايت کی ہے اور انکی بعض روايات ميں ذا الحاجھ يعنی ضرورتمند کا لفظ آيا ہے۔

[3] المجموع از نووی 4 / 124 .

[4] سنن ابی داود ميں صـ 814 پر عمرو بن شعيب نے اپنے والد اور اپنے داد سے روايت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ميں نے رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – سے فرض نمازوں کی امامت ميں طويل اور چھوٹی سورتوں کی تلاوت سنی ہے ۔

اور سنن الترمذی ميں صـ 307 پر قطبہ بن مالک سے مروی ہے آپ نے کہا : ميں نے رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – کو فجر کی پہلی رکعت ميں النخل باسقات يعنی سورہ ق کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔

اور آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – کے بارے ميں مروی ہے کہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے صبح سورہ واقعہ پڑھی تھی اور يہ بھی روايت ہے کہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نماز فجر ميں 60 سے 100 آيات کريمہ تک تلاوت فرماتے تھے اور يہ بھی مروی ہے کہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے " اذا الشمس کورت " کی تلاوت فرمائی -

[5] سنن ابی داود کے صـ 814 پر مروان بن حکم – رضی اللہ عنہ – سے مروی ہے کہ آپ نے کہا : کہ مجھـ سے زيد بن ثابت – رضی اللہ عنہ – نے کہا : تجھے کيا ہے ؟ کہ تم مغرب ميں چھوٹی ہی سورتيں پڑھتے ہو جبکہ ميں نے مغرب رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – کو طولی الطوليين ، پڑھتے ديکھا ہے ۔ آپ نے کہا کہ ميں نے پوچھا ۔ يہ طولی الطوليين سے کيا مراد ہے آپ نے فرمايا سورہ اعراف اور سورہ انعام ۔ 

[6] سنن الترمذی کے صـ 310 پر عبداللہ بن بربرہ نے اپنے والد سے روايت کی ہے کہ انہوں نے کہا :

رسول کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – نماز عشاء ميں سورہ الشمس ، سورہ الضحی اور ان جيسی سورتوں کی تلاوت فرمائی ہے اور يہ بھی مروی ہے کہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے نماز عشاء ميں سورہ التين اور سورہ الزيتون کی تلاوت فرمائی اور حضرت عثمان بن عفان – رضی اللہ عنہ – کے بارے ميں مروی ہے کہ آپ نماز عشاء ميں درميانی سورتيں جسے المنافقوں اور اس طرح کی دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے تھے اور حضور نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – کے صحابہ کرام اور تابعين کے بارے ميں مروی ہے کہ انہوں نے اس سے زيادہ اور کم بھی پڑھا ہے اور انکے نزديک اس مسئلے ميں وسعت ہے ۔

اس مسئلے ميں سب سے افضل بات وہ ہيکہ جو نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – كے با رے ميں مروی ہيکہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے نماز عشاء ميںسورہ الشمس ، سورہ التين اور سورہ الزيتون کی تلاوت بھی فرمائی ہے ۔