خلاصۂ
فتوی:
جوتوں کے ساتھـ نماز ادا کرنا جائز ہے ۔ اور قاليں جوتوں
کے ساتھـ نماز کی ادائيگی ميں رکاوٹ نہيں ۔
شيخ ابن
عثيمين مجموع فتاوی و رسائل 12/ 387
تبصرہ:
کھلی فضا
يا جگہ جو آلودگی سے پاک ہو وہاں جوتوں کے ساتھـ نماز ادا
کرنے ميں کوئی ممانعت نہيں اور اگر مسجد ميں صاف ستھری
جائے نماز بچھی ہوں تو ہميں چاہتے کہ ہم انهيں آلودگی سے
بچائيں خواہ وہ ( آلودگی ) پاک ہی کيوں نہ ہو ۔
علمی رد:
مساجد کی تعمير ،
انہيں آباد ، انکی نگہداشت اور ان ميں بکھری ہوئی چيزوں کو
درست کرنا سنت ہے ، حضرت عثمان بن عفان
–
رضی اللہ عنہ –
سے مروی ہے ۔ آپ نے فرمايا : کہ ميں نے رسول مکرم
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
کو يہ فرماتے ہوئے سنا: "مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا
بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ" ( امام بخاری
اور امام مسلم نے روايت کی ہے)،
تر جمہ:
جو اللہ
تعالی کيلئے مسجد تعمير کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے
اسکی مانند جنت ميں ( محل ) تعمير کرتا ہے۔
اور فقھاء
کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ مسجدوں کو گندگی اور نجاستوں سے
پاک رکھنا واجب ہے اور نا پاک چيزيں مسجد ميں لے جانا ، يا
وہ شخص جسکے بدن يا کپڑوں پر نجاست يا زخم ہو اسے داخل
ہونے کی اجازت دينا جائز نہيں ۔
اور مسجدوں
کو آلودگی ( خواہ وہ پاک ہی کيوں نہ ہو ) سے بچانا ، مسجد
ميں جھاڑو دينا، اسکی صفائی کرنا ، اور اس سے بلغم ، تھوک
اور اسی طرح کی دوسری چيزيں اسميں نظر آئيں تو انہيں زائل
کرنا بھی سنت ہے۔
صحيح بخاری
اور مسلم ميں حضرت انس –
رضی اللہ عنہ –
سے مروی ہے کہ نبی کريم –
صلی اللہ عليہ و سلم –
نے مسجد ميں تھوک ديکھا تو اسے اپنے دست مبارک سے کھرچ ديا۔
اور آپ
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
نے فرمايا : مسجد ميں تھوکنا خطا ہے اور اسے دفن کرنا اسکا
کفارہ ہے۔
اور مسجدوں
ميں بد بو پھيلانا ( بھی ) نا پسنديدہ چيز ہے ( کيونکہ )
آپ –
صلی اللہ عليہ وسلم –
كى حديث مبارکہ ہے: "أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا
فَلْيَعْتَزِلْنَا أَوْ قَالَ فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا"
([1])،تر
جمہ:
جس ( شخص )
نے لہسن يا پياز کھايا تو وہ ھم سے عليحدگی اختيار کرے يا
ھماری مساجد سے کنارہ کش رہے۔
مروی ہے کہ
امام ابو حنيفہ –
رضی اللہ عنہ –
نے ايک شخص کو مسجد کے ستوں سے اپنے موزے صاف کرتے ہوئے
ديکھا تو آپ نے اسے فرمايا کہ اگر تو اسے اپنی داڑھی سے
صاف کرتا تو يہ تمھارے لئے بہتر تھا ([2])۔
اور مسجد
ميں داخل ہونے والے ہر شخص کو چاہئے کہ مسجد کو آلودگی سے
بچانے کيلئے اس ميں داخل ہونے سے پہلے جوتے اور چمڑے کے
موزے اتار دے ۔ اور يہ کہا گيا ہے کہ جوتے پہنے ہوئے مسجد
ميں داخل ہونا خلاف ادب ہے ۔
حضرت علی –
رضی اللہ عنہ –
کے بارے ميں مروی ہے کہ آپ –
رضی اللہ عنہ –
کے پاس جوتوں کے دو جوڑے تھے ، جب آپ
–
رضی اللہ عنہ –
وضو کرتے تو ان ميں سے ايک پہن کر مسجد کے دروازے تک (
جاتے ) پھر اسے اتار کر دوسرا پہن ليتے تھے اور مسجد ميں
نماز کی اپنی جگہ داخل ہوتے ([3])۔
اور يہ وہ
وقت تھا جب مسجد کا فرش کچا ہوتا تھا ، تو آج جب مسجدوں
ميں جائے نمازيں اور قالين بچھے ہوئے ہوں ، تو آپ کا کيا
خيال ہے۔
پس مسجد کے
صاف ستھرے فرش ، جائے نماز کی حفاظت انتھائی ضروری ہے خواہ
آلودہ اشياء پاک ہی کيوں نہ ہوں ، جوتوں کے ساتھـ
مسجدوںميں داخل ہونے کے جائز ہونے کا فتوی شريعت اور عقل
کے خلاف ہے ۔ کيونکہ ان مساجد ميں قيمتی قالين بچھے ہوئے
ہيں جنکو روزانہ آلات اور مشينوں سے صاف کيا جاتا ہے تاکہ
يہ بہترين حالت ميں ہوں جبکہ جوتوں ميں اکثر گندگی اور
شايد نجاست بھی ہوتی ہے اور جوتوں کے ساتھـ نماز ادا کرنا
مستحب نہيں بلکہ اجازت کے طور پر ہے کيونکہ يہ اجازت نماز
کے اصل مفہوم ميں سے نہيں ۔
شيخ محمد
صالح المنحد کی نگرانی ميں سوال و جواب کے زير عنوان ديئے
جانے والے اسلامی فتوؤں ميں ہے کہ ۔
آج کل
مسجدوں ميں قالين بچھے ہوتے ہيں چنانچہ جوتے پہنے ہوئے
مسجد ميں داخلہونے سے يہ گندے ہو سکتے ہيں اور ہو سکتا ہے
کہ بعض لا پرواہ لوگ گندگی و نجاست سے آلودہ اپنے جوتوں کے
ساتھـ مسجد ميں داخل ہوتے ہوں ۔ اور اگر تمام نمازيوں کو
جوتے پہنے ہوئے مسجد ميں داخل ہونے کی اجازت دی جائے تو
ہميں مسجد کی صفائی کيلئے ہر روز نہيں بلکہ ہر نماز کے بعد
صفائی کيلئے صاف کرنے والوں کی ايک بڑی تعداد درکار ہوگی،
اور ھم يہ گمان بھی نہيں کر سکتے کہ کوئی شخص بھی مٹی ،
گرد و غبار کے علاوہ گندگی اور نجاستوں سے بهرے قالينوں پر
نماز ادا کرنا پسند کريگا۔
شيخ البانی
نے کہا : ميں نے اپنے سلفی بھائيوں کو مشورہ ديا کہ اس
مسئلہ يعنی مسجدوںميں جوتوں کے ساتھـ نماز ادا کرنے ميں
تشدد اور سختی نہ کريں کيونکہ عصر حاضر کی مساجد جن ميں
اعلی قسم کے قالين بچھے ہوئے ہيں ۔ ان ميں، اور زمانہ اول
کی مسجد نبوی–
صلی اللہ عليہ و سلم –
ميں فرق ہے ، اور ميں نے انکے سامنے اس مسئلہ ميں حضور
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
کی سنت سے ايک دوسرا قصہ بيان کيا کہ نبی کريم
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
نے حالت نماز ميں ہر تھوکنے والے يا ناک کی رطوبت صاف کرنے
والے کو حکم ديا کہ وہ اپنی بائيں طرف يا اپنے قدموں کے
نيچے تھوکے۔
اور يہ حکم
واضح اور زمين کی نوعيت کے عين مطابق ہے ، مسجد کی زمين
جہاں وہ مجبورا تھوکے گا ۔ ريت اور پتھروں سے عبارت ہے
ليکن آج مساجد ميں قالين بچھے ہوئے ہيں تو کيا وہ يہ کہتے
ہيں کہ قالين پر تھوکنا جائز ہے، اور يہ بات اسی کی مانند
ہے ([4])۔
خلاصہ يہ
کہ ايک انسان کھلے مقامات يا آلودگی سے پاک جگہ ميں جوتے
پہنے ہوئے نماز پڑھ سکتا ہے جہاں تک ( ان ) مساجد جن ميں
عام لوگ نماز ادا کرتے ہيں اور انکی صفائی، گندگی سے حفاظت
کا بہت زيادہ خيال رکھتے ہيں کا تعلق ہے ۔ تو جوتوں کے
ساتھـ نماز ادا کرنے کے جائز ہونے کا فتوی لوگوں کيلئے
فتنے کا سبب اور انکے درميان شر کے دروازوں کو کھولنا ہے۔
اللہ اعلم.
ڈاکٹر احمد
عيد
[1]
مطالب اولی النھی 2 / 254.
[2]
المبسوط از سرخسی 1 / 85 .
[4]
کتاب فتاوی الاسلام ۔ سوال و جواب
ج 1 / 5670 ۔ سوال نمبر 69793.