خلاصہ
فتوی
: جس نے قربانی کا ارادہ کیا اس کے لۓ ذوالحجہ کے شروع میں
بال یا ناخن کٹوانا حرام ہے۔
الشیخ ابن
جبرین فتوی بتاریخ 8/12/1421 ھ
تبصرہ:
جمہور
فقہاء کے نز دیک قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کے لۓ بال
اور ناخن کٹوانا حرام نہیں ہے بلکہ ان کے نز دیک یا تو
جائز یا تو مکروہ ہے۔
علمی رد:
امام بخاری
کے علاوہ دیگر ائمہ کی ایک جماعت نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ
تعالی عنہا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: "إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ
وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ
فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ
وَأَظْفَارِهِ" وفى رواية لمسلم "فلا يأخذن من شعره
وأظفاره حتى يضحى"،
ترجمہ:
جب تم
ذوالحجہ کا چاند دیکھـ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا
ارادہ رکھتا ہوتو اسے چاہۓ کہ اپنے بال اور ناخنوں کو
کٹوانے سے پرہیز کرے اور امام مسلم کی روایت میں ہے"
فلا يأخذن من شعره وأظفاره حتى يضحي"، ترجمہ: "وہ
قربانی کرنے تک ہر گز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے"۔
قربانی کا
ارادہ کرنے والے شخص کے بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں
علماء کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے۔
1.
امام شافعی رحمہ االلہ نے فرمایا کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے
یعنی اس میں گناہ نہیں ہے اس کی دلیل مذکورہ حدیث شریف ہے
انہوں نے اس میں نہیں سے مراد کراہت لی ہے حرمت نہیں اسکی
تائید صحیح بخاری کی یہ حدیث مبارکہ کرتی ہے ۔حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل
مدینہ کی جانب سے قربانی فرماتے تھے تو میں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی قربانی (کے جانوروں ) کے لۓ گلے کے پٹے تیار
کرتی اور جن چیزوں سے محرم(احرام باندهنے والا) اجتناب
کرتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیز و ں میں سے کسی سے
بھی اجتناب نہیں فرماتے تھے۔
2.
امام احمد ابن حنبل اور بعض فقہاء شافعیہ کے نز دیک یہ
حرام ہے انہوں نے حدیث میں نہی سے حرام مراد لیا ہے۔
3.
اور امام ابو حنیفہ رحمہم االلہ کے نز دیک حلق ( سر
منڈوانا) التقصیر( یا چھوٹے کرانا مکروہ نہیں ہے۔
4.
امام مالک- رحمہ اللہ - سے ایک قول امام ابو حنیفہ کی طرح
عدم کراہت کا مروی ہے جبکہ ان کا ایک قول ہے کہ واجب تو
نہیں البتہ غير واجب ممانعت ہے۔
ان تمام
اقوال سے اخذ ہوتا ہے کہ قربانی کا ارادہ کرنے والےکے لۓ
بال اور ناخن کٹوانا جمہور فقہاء کے نزدیک حرام نہیں ہے
بلکہ انکے نزدیک یا تو جائز یا تو مکروہ ہے۔ اورفقہی راۓ
کے لئے تعصب نہیں ہونا چاہۓ بطور خاص جب کہ جمہور کی راۓ
یہ نہ ہو ([1])۔
ڈاکٹر
عبداللہ فقیہ کی زیر نگرانی فتوی مرکز کا فتوی ہے:
قربانی کا
ارادہ رکھنے والے شخص کو چاہۓ کی وہ ماہ ذوالحجہ کے پہلے
عشرے میں اپنے بال اور ناخن کٹوانے سے اجتناب کرے ان میں
سے معمولی کٹوانا بھی ممنوع ہے اور مکروہ بھی بتایا گیا ہے
،اور اکثر اہل علم کی راۓ جیسا کہ امام مسلم نے حضرت ام
سلمہ رضی للہ عنہ سے روایت کی ہے:
"إذا دخل العشر وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يأخذ من شعره ولا
من أظفاره شيئاً حتى يضحي"
کہ جب ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جاۓ اور تم میں سے
کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور
اپنےناخن قربانی کرنے تک نہ كاٹے اور ایک روایت میں ہے کہ
اپنےچہرے سے بھی۔
اور اگر اس
نے اپنے بال اور ناخن کاٹ لۓ تو وہ اللہ تعا لی سے استغفار
کرے اور اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔([2])
اللہ اعلم۔
ڈاکٹر محمود عبدالجواد
[1]
فتاوی ارالافتاء المصریہ موضوع 60/ مفتی فضیلت
شیخ عطیہ صقر مئی 1997۔
[2]
فتوی مرکز زیر نگرانی ڈاکٹر عبداللہ فقیہ فتوی
نمبر 7510 تاریخ فتوی 3 ذوالحجہ 1424 ھ۔