خلاصہ فتوى:
جهل ،لاعلمى عقيدے ميں عذر نہيں ہوتا، جو كوئى شخص لاعلمى
كى بناپر كفر كر بيٹهے تو اسكى لاعلمى كى وجہ سے اسكى
معذرت قبول نہيں ہوگى اور وه ہميشہ ہميشہ كيلئے جہنم ميں
ہوگا
شيخ ابن باز- مجموع فتاوى
ومقالات متنوع 9/ 398
تبصره:
يہ فتوى ان
جملہ فتوؤں كے متشدّد، سخت منهج كے مطابق ہے جسكا مقصد
بظاهر ہر طريقے سے مسلمانوں كا محاصره كرنا ہے اور جس قدر
ممكن ہو سكے مسلمانوں كى زياده سے زياده تعداد كو اسلام سے
خارج كرنا ہے اسلام اور ہر دوسرے مذهب ميں جہلاء پائے جاتے
ہيں انہيں وعظ ونصيحت كرنا اور تعليم دينا اور انكے ساتهـ
نرمى سے پيش آنا لازم ہے، انہيں اسلام سے خارج كيا جائے
اور نہ ہى كافر كہا جائے-
علمى رد:
اهل سنت
والجماعت كے مطابق اگر كوئى مسلمان لاعلمى كى بناپر كوئى
كافرانہ عمل كرے تو اسكى يہ لاعلمى اس پر كفر كا حكم لگانے
سے مانع ہوتى ہے اور پهر يہ اس كےعذاب ميں بهى مانع ہوگى
جو الله تعالى نے روز قيامت كافروں كيلئے تيار كيا ہے كہ
وه ہميشہ گمرا ہوں اور جن پر الله تعالى كا غضب ہوا ہے
انكے ساتهـ نار جہنم ميں رہےاهل سنت كے دلائل مندرجہ ذيل
ہيں:
اولاً: الله رب
العزت نے سوره مائده ميں حواريوں كى خطاؤں اور انكى اپنے
رب كے بارے ميں يہ لاعلمى كہ وه(ذات عالى) ہر چيز پر قادر
ہے اور اسى طرح حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت كى سچائى
ميں انكے شكوكـ كا قصہ بياں فرمايا ہے علاوه ازيں الله
تعالى نے انكے بارے ميں فرمايا:
﴿إِذْ
قَالَ
الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ
يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا
مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ[1]﴾
(المائدة
112).
ترجمہ:
اور(يہ بهى ياد كر) جب حواريوں نے كہا اے عيسى ابن مريم
كيا تمهارا رب ايسا كر سكتا ہے كہ هم پر آسمان سے(كهانے
كا) خوان اتار دے-
چنانچہ
باوجوديكہ اسميں شكـ كرنا كہ الله تعالى ہر چيز پر قادر ہے
كفر ہے ليكن اس سلسلے ميں حواريوں كى جہالت اور لاعلمى كى
وجہ سے انكى تكفير نہيں كى اور اور انكا يہ عذر شمار كيا
گيا.
ثانيًا: نبى
اسرائيل ميں سے جن لوگوں نے حضرت موسى عليہ سے كہا تها كہ:
﴿اجْعَلْ
لَنَا إِلَهاً كَمَا
لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ[2]﴾
(الأعراف الآية 138).
اے موسى عليہ
السلام همارے لئے بهى ايسا(ہى) معبود بناديں جيسے انكے
معبود ہيں. موسى عليہ السلام نے كہا تم يقينًا بڑے جاہل
لوگ ہو-"
حضرت موسى سے
انكا يہ كہنا اور سوال كرنا كہ انكے لئے الله تعالى كے
ساتهـ كوئى معبود بنادے. واضح كفر ہے جسميں كوئى شكـ نہيں
ليكن انكى لاعلمى كے عذر كى وجہ سے انكى تكفير نہيں كى
گئى.
ثالثًا:
امام ابن ماجہ نے روايت كى ہے كہ حضرت معاذ جب شام سے
تشريف لائے تو انہوں نے رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كو
سجده كيا. تو آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: "ما هذا
يامعاذ". معاذ يہ كيا ہے، تو آپ نے عرض كى يا رسول صلى
الله عليہ وسلم ميں شام سے آيا ہوں چنانچہ ميں نے ديكها كہ
وه اپنے اساقف([3])
اور بطرقوں كو سجد كرتے ہيں تو مـيرے جى ميں بهى آيا كہ هم
بهى آپكے لئے ايسا كريں تو رسول كريم صلى الله عليہ وسلم
نے فرمايا: "فلا تفعلوا فإني لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد
لغير الله لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها"([4])
ترجمہ: "بس تم ايسا نہ كرو اگر ميں كسى كو الله تعالى
كےعلاوه سجدے كا حكم ديتا تو يقينًا عورت كو حكم ديتا كہ
وه اپنے شوهر كو سجده كرے".
يہ ايكـ معروف
حقيقت هيكہ غير الله كو سجده كرنا كفر ہے ليكن نبى كريم
صلى الله عليہ وسلم نے انہيں يہ باور كرايا كہ سجده كرنا
عبادت ہے اور يہ الله تعالى كے سوا كسى اور كيلئے جائز
نہيں مگر آپ صلى الله عليہ وسلم نے ان پر كفر وارتداد كا
حكم نہيں لگايا-
رابعًا: بخارى
نے حضرت ابن عمر سے روايت كى ہے كہ وه حضرت عمر بن خطاب كے
ساتهـ سوار ہوئے اور وه اپنے باپ كى قسم كها رہے تهے
چنانچہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے انہيں بلايا(اور
فرمايا):
«أَلاَ
إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ،
فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، وَإِلاَّ
فَلْيَصْمُتْ»
([5]).
كيا الله تعالى
نے تمهيں اپنے أبا وأجداد كى قسم كهانے سے منع نہيں فرمايا
پس جو كوئى قسم كهائے تو اسے چاہيے كہ وه الله تعالى كى
قسم كهائے وگرنہ چپ رہے.
الله رب العزت
كے علاوه كسى اور كى قسم كهانا شركـ ہے جيسا كہ اس حديث
مباركہ ميں ہے، آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: "من حلف
بغير الله فقد أشركـ"([6])
جس نے الله تعالى كے علاوه كسى اور كى قسم كهائى تو اس نے
شركـ كيا." ليكن حضرت عمر كو اس وقت علم نہيں تها كہ الله
تعالى كے علاوه كسى اوركى قسم كهانا شركـ ہے اسى حقيقت كى
بناپر(انكى لاعلمى كو) عذر شمار كيا گيا.
يہ اور انكے
علاوه اور بہت سے دلائل ہيں جن سے مكمل طور پر واضح ہوتا
ہے كہ مسلمان سے لاعلمى كى بناپر كفر سرزد ہو تو اس پر كفر
كا حكم نہيں لگايا جاتا ہے اور نہ ہى اسے كافر كہا جاتا
ہے يہاں تكـ كہ اسكو بتا كر اس پر حجت قائم كردى جائے. اور
اگر لاعلمى كى معتبر وجوہات اور اسباب ہوں جنهيں دور نہيں
كيا جا سكتا تو اس صورت ميں اسكى لاعلمى بطورعذر قبول كى
جاتى ہے. تو نتيجةًً اس پر نہ تو كفر كا حكم لگايا جاتا ہے
اور نہ ہى اس كيلئے وعيد اور عذاب ہے.
اور يہ شيخ ابن
عثيمين كى رائے ہے:
ان سے سوال كيا
گيا كہ اگر كوئى كافر اسلام قبول كرے اسكے بعد اس سے
لاعلمى كى وجہ سے اسلام كے منافى امور ميں كوئى امر سرزد
ہوجائے تو اسكے ساتهـ كيسے تعامل كيا جائے؟ كيا وه اپنے
اسلام كى تجديد كرے؟
(انہوں
نے اسكا) جواب ديا. تمام تعريفيں الله تعالى كيلئے ہيں.
اسكے ساتهـ احسن طريقے سے تعامل كيا جائے اور اسے بتايا
جائے كہ يہ اسلام كے منافى امور ہيں- اور اسكے اسلام كى
تجديد كى ضرورت نہيں كيونكہ وه سرزد ہوئے ان نواقض سے واقف
نہيں تها ارشاد بارى تعالى ہے.
﴿وَمَا
كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (الإسراء
15)، ترجمہ: اور هم ہرگز عذاب دينے والے نہيں يہاں تكـ كہ
هم(اس قوم ميں) كسى رسول كو بهيج ليں.
ايكـ اور مقام
پر فرمايا:
﴿وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا
ظَالِمُونَ﴾
(القصص 49)، ترجمہ: اورهم بستيوں كو هلاك كرنے والے نہيں
ہيں مگر اس حال ميں كہ وہاں كے مكين ظالم ہوں. اور جاہل
ظالم نہيں ہوتا كيونكہ اس نے كسى گناه پر انحصار نہيں كيا
بالخصوص وه شخص جو نو مسلم ہے اور اسے مشرف باسلام ہوئے
زياده وقت نہيں گزرا. الله أعلم بالصواب.
ڈاكٹر محمد فؤاد
[3]
عيسائى پادريوں كا ايكـ مرتبہ ہے.