خلاصہ
فتوی:
جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ انکی بنیاد سود پر
ہے اور لین دین میں اسی سود پر تعامل (کاروبار) کرتے
ہیں ۔اور جو بھی ایسے ہیں انکے ساتھ کام کرنا جائز
نہیں ہے۔
الشیخ ابن عثيمین نے9/7/1412 هـ كو اسے لكها
تبصرہ:
عام حالات میں بینک کچھـ سرگرمیاں ایسی کرتے ہیں جو
دین کے مخالف نہیں ہوتی اور کچھـ ایسی ہيں جو مخالف ہو
تی ہیں ۔چنانچہ انکے اموال میں شبہ ہوتا ہے کیو نکہ ان
میں حلال اور حرام (دونوں ) ملے ہوتے ہیں ،چنانچہ اگر
ملازم براہ راست سودی کام اور معاھدے میں شریک نہیں
ہوتا تو اس کے لۓ بینکو ں میں کام کرنا جائز ہے۔
علمی
رد:
بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ ، چیک کیش کرنا ، تصدیق نامے
اور داخلی ڈرافٹس جو کہ تاجروں کے درمیان یا بینکوں کے
اندر انجام دئیےجاتےہيں ۔اور اس طرح کے اعمال سے جو
حاصل ہوتا وہ سود نہیں اور بینک میں ان اعمال كا انجام
دینا بهى حرام نہیں ہوتا۔
لیکن بینک کچھـ ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں جو کہ دین کے
خلاف ہین .انہى ميں سے ائتمان یعنی فائدے کے ساتھ قرض
لینا اور دینا اور یہی بینکوں کا بنیادی کام ہے ،تو اس
وجہ سے بینکوں كے اموال ميں حلال اور حرام دونوں ملے
ہو تے ہیں ۔
اس بنا پر ان بینکوں میں کام کرنے میں شبہ ہے اور شبہ
اگرچہ حرام نہیں مگر حرام کی چراہ گاہ(ضرور) ہے۔
جیسے کہ امام بخاری اور مسلم کی روایت کردہ حدیث
مبارکہ کی نص ہے۔
"الْحَلَالُ
بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُتَشَابِهَاتٌ
لَا
يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ
اسْتَبْرَأَ
لِعِرْضِهِ وَدِينِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ
وَقَعَ فِي الْحَرَامِ
كَالرَّاعِي
يَرْعَى
حَوْلَ
الْحِمَى فَيُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ"،
ترجمہ: "حلال
(امور) واضح اور حرام (امور) بھی واضح ہیں ان دونوں
کے درمیان کچھـ مشتبہ امور ہیں انہین اکثرلوگ نہیں
جانتے ۔پس جو شبھات سے بچ گیا تو اس نے اپنا دین اور
عزت بچالی اور جو شبھات میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ
گیا حیسے (کوئی) چرواہا کسی ممنوع چراہگاہ کے گرد
بکریا ں چراتا ہے تو قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جاۓ"۔
اگر
مومن چاہے کہ وہ مکمل طور پر یا كچهـ مطئن ہو تو اسے
چاہۓ کہ وہ ایسا عمل تلاش کرے جس میں زيادة یا واضح
طور پر شبہ نہ ہو خواہ کمائی یا اجر تھوڑا ہی ہو جو کہ
زیب وزینت کے علاوہ ضرورتوں كيلئے كافى ہو اور اگر
حلال روزگار میسر نہ ہو تو حرام اور شبہ سے خالی بہتر
عمل کی تلاش کے ساتھـ وقتی طور پر ضرورتا اس میدان میں
کام جائز ہے ۔اور اگر نیت سچی ہوئی تو اللہ تعالی وہ
کام آسان کر دیگا ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿وَمَن
يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2)
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾
(الطلاق3،2)،
ترجمہ:
اور جو اللہ سے ڈرتا ے وہ اس کے لۓ (دنیا و آخرت کے
رنج وغم سے) نکلنے کی راہ پیدا کر دیتاہے اور اسے
ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہا ں سے اسکا گمان بھی
نہیں ہوتا ۔ایک اور مقام پر فرمایا:
"﴿وَمَن
يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا﴾
(الطلاق 4)، ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ
اس کے کام میں آسانی فرمادیتا ہے۔([1])
اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک بینکوں
کے فوائد حلال ہیں۔
شوافع کے قول کہ" مروجہ روپیو ں جیسے
ورق کے نوٹ پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا "پر اعتماد کرتے
ہوۓ وہ شخص جو بینکوں میں کام کرنے کی آزمائش کا شکار
ہے اسے چاہۓ کہ وہ اس راۓ کی تقلید کرے ۔اور یہ حرام
کا اعتقاد لے کر کام پر جانے سے افضل ہے۔([2])
اللہ اعلم۔
اور اگر ملازم براہ راست سودی کام اور
معاھدے میں شریک نہ ہو تو بعض علماء نے بینک میں کام
کرنے کی اجاز ت دی ہے ۔ شیخ عبدالمحسن بن ناصر آل
عبیکان نے کہا : ہائی کورٹ کمیٹی کے سابق سر براہ
عزت مآب ہمارے شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید کے نزدیک
اگر ملازم کا براہ راست سودی کام اور عقد سے تعلق نہ
ہو تو بینک میں ملازمت کرنا جائز ہے۔([3])
شیخ عبدالمحسن بن ناصر آل عبیکان نے کہا: یہی را ۓ
صحیح ہے۔
ڈاکٹر انس ابو شادی
[1]
فتاوي دارالافتاء المصریہہ موضوع 8 مفتي فضيلت
شيخ عطيہ صقر مئي 1997۔
[2]
او ریہ ایسے ہی ہے جیسے اہل علم نے اس شخص جو
کہ سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کی
آزمائش میں ہے کے بارے میں کہا ہے کہ اسے چاہے
کہ وہ ابوداؤد ظاہری کے قول سے انکا استعمال
کرنا مکروہ تن یہی ہے ۔حرام نہیں جوکہ جمہور
علماء کہتے ہیں ،تاکہ حرام سے نجات ملے حاشیہ
البیجوری علی ابن قاسم العزی 1/41۔
[3]
ایک قول کی نص یہ ہے:
ہاں: جب تک تمہاری تنخواح میں باالذات عین
سود نہیں بلکہ مخلوط ہے احتمال ہے کہ وہ سود
ہو اور احتمال ہے کہ وہ سود نہ ہو تو اس میں
کو ئی حرج ،چنانچہ جب تک معاملہ میں اشتباہ ہے
،تبرا کے لۓ اسے تنخواہ لینا جائز ہے خاص طور
پر تم لکھنے میں مدد نہیں کرتے ہو اور نہ ہی
تم وہ پیسے لکھتے ہو جن میں سود کا شائبہ ہوتا
ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعا لی سود کھانے ،اسکے
کھلانے والے ،اسکے لکھنے والے اور اسکی گواہی
دینےوالوں پر لعنت بھیجتا ہے ۔ ایک اور حدیث
مبارکہ میں اپ نے فرمایا ( سود کے 73 دروازے
ہیں ان میں کم تر ایسے ہے جیسے آدمی اپنی ماں
سے زنا کرے"۔
چنانچہ سود بہت ہی بڑا گناہ ہے ۔اور ابن دقیق
عید نے کہا کہ معاذاللہ سود کھانے والوں کا
انجام برا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ جب معاملے میں
تمہیں شک اور تمہیں تمہاری تنخواہ دی جاۓ اور
تمہیں معلوم نہیں کہ وہ عین سود یا اسکے علاوہ
ہے تو اسکے لینے میں حرج ہے جیسا کہ شیخ
الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی تائید کی ہے ۔اور
اگر تم سود نہیں لکھتے ،نہ لکھنے میں مدد کرتے
ہو بلکہ دوسری چیزیں لکھتے ہو جیسا کہ تمہارے
سوال سے ظاہر ہے تو انشاءاللہ تم پر کوئی گناہ
نہیں ۔ اللہ اعلم۔ مجموع فتاوی (1871- 188 )انٹرنیٹ
پر شیخ عبیکان
website۔