اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> انشورنس کا حکم  

سوال : تجارتی انشورنس کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ یہ جوا ہے اور اس میں دھوکا ہے۔

 

شیخ ابن جیرین اللؤلو المكين190 -191

 شیخ یاسر بر ہانی www.alsalafway.com

تبصرہ:

انشورنس ايک جديد معاملہ ہے اس كے حكم ميں معاصر علماء كا اختلاف ہے.مگر عصر حاضر کی زندگی کے حالات ، تنگی ومشقت کو دور کرنے کے لۓ انشورنس کی کچھـ  قسموں کو ضرور ی قرار دیتے ہیں۔

علمی رد:

انشورنس کا نظام بنیادی طور پر نفع پہنچانے ، باہمی تعاون اور ہمدردی پر قائم ہے ،اس معنی میں اگر وہ اپنے اموال کی سرمایہ کاری ، اپنے معاھدوں اور نظام میں شرعی احکام کی پابندی کرے تو يہ اصل اسلامی اقدار میں سے ہے ۔ اور آج ہمارے زمانے میں انشورنس کے معاھدوں اور نظام كى مختلف قسميں ہيں. تجارتى انشورنس .سوشل انشورنس يا  باہمی ضمانت وغيرہ اور ان میں سے ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔

سوشل انشورنس جسکا مقصد نفع نہیں بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں /مستفید ہو نے والوں کی سوشل حفاظت ہوتى ہے. یہ اس طرح کہ ملازم کی پوری مدت ملازمت کے دوران قانونی طریقے سے اسکی تنخواہ کا کچھـ حصہ منھا کیا جاتاہے (کٹوتی کی جاتى ہے ) چنانچہ اس سے فائدہ اٹھانا ،اورجو ادارے  یہ کا م انجام دیتے ہیں ان میں کرنا جائز ہوتا ہے ۔اور اسی کی مانند اسلامی انشورنس یا ضمانتی انشورنس یا تعاونی انشورنس ہے۔ اللہ اعلم۔

 

جبکہ تجارتی انشورنس میں اختلاف ہے اور جمہور علماء عصر کے نز دیک تجارتی انشورنس یا زندگی اورغیر منقولہ جائداد وغیرہ کا بیمہ کرانا ممنوع ہے ۔اور ان چیزوں کی انشورنس اس طرح ہوتی ہے ان کے آگ سے جلنے یا تلف ہونے کی صورت میں عوض کے طور پر مقررہ مدت  كيلئےمعتمد کمپنی کو معین مبلغ دی جاتى ہے ،اوراس کے بدلے میں حادثات وغیرہ کی وجہ سے جو چیز ھلاک یا تلف ہوئی وہ کمپنی اسکے(نقصان)  کی ذمہ داری لیتی ہے اور انکے نزدیک اس صورت میں انشورنس جائز نہیں ہے کیونکہ یہ معاھدہ خطرے یا حادثے کے ہونے سے مشروط ہے کبھی واقع ہوتا ہے اور کھبی نہیں ،اس معنی میں يہ جانبداری اور جوۓ کے مشابہ ہے اورشرعا(يہى)  اسکے فاسد ہونے کا راز ہے۔ ([1])  اور بعض معاصرعلماء  کرام کے نزدیک یہ حلال ہے ان میں سے شیخ علی الحفیف ،محمد یوسف موسی ،عبد الوہاب خلاف ،مصطفی  الزرقا اور مفتی  دیار مصر ڈاکٹر علی جمعہ ہیں۔ ([2])

  اور احتیاط کے لۓ جمہور علماء کے قول کو ترجیح دی جاتی ہے ۔مگر عصر حاضر کی زندگی کے حالات ،تنگی ومشقت کو دور کرنے کے لۓ انشورنس کی کچھـ  قسموں کو ضرور ی قرار دیتے ہیں ،اور یہ اس کے لۓ جسے اپنےاموال کے ضائع ہونے کا خوف رہتا ہو۔ خاص طور پر وہ اموال جن میں اسكے ساتهـ بہت سے لوگ شامل ہوں ۔بس ضرورتیں ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں ،اور انشورینس سے اسکا لین دين۔

 ضرورت کے باب میں یا یقینی طور پر شدیدحاجت ہوگی  چنانچہ تجارتی انشورنس کے نظام میں موجود دھوکہ قابل معافی ہوگا ۔ اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] موضوع (666) مفتی فضیلت شیخ بکری الصدفی 10 شعبان 1328ء ۔موضوع (660)مفتی فضیلت شیخ محمد بخیت 13 ربیع الاخر 1337 ھ ۔ 15 جنوری 1919 ء موضوع (668) مفتی فضیلت شیخ عبدالرحمن قر عہ جمادی الثانی 23 ستمبر 1921 ء موضوع (1278)  مفتی فضیلت شیخ جاد الحق علی جادالحق 7 صفر 1401 ھ 14 دسمبر 1980 م ۔

[2] انہوں نے عاقلہ پر قیاس سے استدلال کيا ہے ۔العاقلہ دیت دینے والا شرعی طور پر قتل خطا میں قاتل کی طرف سے دیت ادا کرتا ہے ،یہی حیثیت و حالت انشورنس کمپنیوں کی ہے کہ وہ نقصانات کی تلافی اور  مصائب میں کمی کرتی ہے۔

اور انہوں نے راستے خطرات کی ضمانت کے مسألۃ سے بھی اسبدلال کيا ہے اور احناف نے اسکو جائز قرار دیا ہے  اسکی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہتاہے تم اس راستے پر چلو یہ محفوظ ہے اور اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچا تو میں ضامن ہے ۔ اور وہ اس راستے پر چلا اور اسے ڈاكوؤں نے لوٹ ليا تو كہنے والے پر ضمان ہے۔

اور انہوں نے پینشن اور اسکے مشابہ انشورنس کے نظام کے معاھدے پر قیاس سے بھی استدلال کیا ہے جوکہ ملازم کی تنخواہ میں سے  کچھـ حصہ ماہوار کٹوتی کی جاتی ہے تاکہ  اسکی ملازمت کے اختتام پر اسکے بدلے میں اسے دیا جاۓ ۔اور یہ انشورینس کی اقساط کے مشابہ اور اسکا عوض ہے اور ان دونوں صورتوں میں اس شخص کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کتنا عرصہ دیگا اور اسکی مبلغ کتنی جمع ہوگی پھر وہ کبھی جمع شدہ اقساط سے زیادہ وصول کرتا ہے اور کبھی کچھـ بھی وصول نہیں کرتا ۔چنانچہ اگر رٹائرمنٹ (پینشن) کا نظام جائز ہے تو انشورنس کا حکم بھی ایسے ہونا چاہۓ۔