اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> سامبا ویزاکارڈ (تجارتی کا رڈز)کا حکم  

سوال : سامبا ویزاکارڈ (تجارتی کارڈز) کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ یہ سود خوروں کا کام، اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا ہے۔

                                                                 فتاوی اللجنہ الدائمہ 13/ 524

تبصرہ:

اگر کریڈیٹ کارڈ کے کے مالک کے بینک اکاؤنٹ میں  کارڈ سے خریدی ہوئی چیزوں کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ رقم ہو تو ان(كارڈز) کے مطابق عمل کرنا جائز ہے. اور بغیر غلاف کے کریڈٹ کارڈز سے لین دین کرنا جائز نہیں ۔ جبكہ وہ زيلدہ سودی فوائد سے مشروط ہوں ۔

علمی رد:

تجارتی کارڈ یا کریڈٹ کارڈ ، كسى بینک كى جاری کنندہ وہ دستاویز ہے جو وہ کسی شخص کے ساتھـ معاھدے کی بنا پر حقیقی یا اعتباری (حامل کارڈ ) کو دیتا ہے اس سے وہ فورا قیمت ادا کۓ بغیر کسی معتمد تاجر سے سامان خرید ، یا خدمات حاصل کر سکتا ہے کیونکہ وہ مصدر (بینک) قیمت دینے کا پابند ہے  اور ( یہ قیمت) بینک اکاؤنٹ سے ادا ہو گی پھر وہ معینہ مدت کے دوران کارڈ کے مالک کی طرف لو ٹا دی جاۓگی اور کچھـ(كارڈز) وہ ہيں جو ادا نہ کی گئی رقم کے مجموعے پر مقررہ ادائیگی کی تاریخ کے بعد سودی فوائد عائد کرتے ہیں جبکہ کچھـ دوسرے (سودی) فوائد لاگو نہیں کرتے۔

او ریہ دو قسم کے ہیں جمیع اخراجات کو محیط کریڈٹ کارڈ اور جمیع اخراجات کوغیر  محیط کریڈٹ کارڈ.

 جمیع اخراجات کو محیط کریڈٹ کارڈز وہ ہيں جن كے مالک کے بینک اکاؤنٹ میں   کارڈ سے خریدی ہوئی چیزوں کے برابر یا اس سے زیادہ رقم موجود ہوتی ہے۔

اور جمیع اخراجات کو غیر محیط کارڈ وہ ہیں جنکے مالک کے بینک اکاؤنٹ میں کارڈ سے خریدی ہوئی چیزوں کی قیمت کے لۓ رقم کافی نہیں ہوتی ہے۔

ا ن کارڈ ز کا حکم:

اولا: اگر اس کارڈ کا جاری کنندہ کوئی ایسا ادارہ یا  کمپنی ہے جس میں نگراں شرعی کمیٹی ہو جو اسکے اعمال کی پیروی کرتی ہو  تو ان کارڈ ز کے مطابق عمل کر نا جائز ہے بشرطیکہ یہ ادارے اپنے كسٹمرز(گاہكوں) پر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سودی اضافہ نہ کریں  بلکہ اس کے اکاؤنٹ کی رقم قرضوں کے لۓ پوری نہ ہو تو ، ضرورت اس امر کی ہے کہ قرض ادا کرنے تک اسکے کارڈ کو روک دیں ۔

ثانیا: تبصرہ اگر کریڈیٹ کارڈ کے کے مالک کے بینک اکاؤنٹ میں  کارڈ سے خریدی ہوئی چیزوں کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ رقم ہو تو ان(كارڈز) کے مطابق عمل کرنا جائز ہے.     ثالثا: تبصرہ بغیر غلاف کے کریڈٹ کارڈز سے لین دین کرنا جائز نہیں ۔ جبكہ وہ زيلدہ سودی فوائد سے مشروط ہوں، یہاں تک کہ کارڈ کا خواہش مند اگر فراہم کردہ فری مدت کے اندر  ادائیگی کا عزم کرلے ( تب بھی نہیں ) بعض فقہاء نے([1]) بیرون ملک مقیم مسلمانوں کو دی گئى مہلت کے اندر ادائیگی کی پابندی کے ساتھ شدید حاجت کے لۓ ان کارڈ ز کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ اس پر تاخیر کے فوائد كا اطلاق نہ ہوں۔

چنانچہ سود کھلانے والا بھی گناہ میں شامل ہوتا ہے او ربیرون ممالک یا اسلامى ممالک میں ر ہنے والوں کے درمیان بڑ ا فرق ظاہر نہیں ہوتا۔

رابعا: اصل قرض پر سود کی شرائط سے خالی، بغیر غلاف كےکارڈ جاری کرنا جائز ہے ۔ للہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] الدکتور یوسف القرضاوی وغیرہ ۔موقع الشیخ القرضاوی  www.Islamonline.net علی الانترنیت۔