اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> اسلام كى دعوت پہنچنے سے پہلے انتقال ہوجانا    

سوال : اس شخص كے بارے ميں سوال كيا گيا جسكا انتقال ہوگيا اور اسے اسلام كى دعوت پہنچى ہى نہيں. اور اگر پہنچى ہے تو صحيح انداز سے نہيں.  

خلاصہ فتوى: جس شخص كو دعوت(اسلام) نہيں پہنچى تو اسكا حكم اهل فتره كا ہے. روز قيامت اسكا فيصلہ كيا جائے گا اور جس شخص كو غلط انداز پر اسلام كى دعوت پہنچى ہے تو اسكے لئے كوئى عذر نہيں. اسے چاہيے كہ وه صحيح بات كو دريافت كرے.

                                                                  الشيخ ابن جبرين، فتاوى واحكام،ص 79- 80 

تبصره:

يہ فتوى بهى ان تمام فتوؤں كى طرح تشدّ د كا حامل ہے.

محقق علماء كرام نے دعوت كے لازم ہونے كيلئے يہ شرط لگائى كہ جسے دعوت پہنچے تو يہ صحيح ہو اسے بگاڑ كر پيش نہ كيا گيا ہو اور اگر اسے دعوت غلط طريقے سے پہنچى ہے تو وه اسلام قبول نہ كرنے ميں معذور ہے.

علمى رد:

همارے آج كے دور ميں كسى كو دعوت نہ پہنچى ہو تو يہ غاروں، جنگلوں اور دور دراز واقع جزائر كى مثال ہے جو اپنے اطراف كى دنيا ميں رابطوں اور وسائل سے نا واقف ہيں اور اس زمانے ميں انكى تعداد بہت ہى كم ہے جبكہ آجكل سلكى ولا سلكى اور ديگر وسائل اتصالات بہت بڑهـ چكے ہيں. اسفار، دنيا كے مختلف علاقوں ميں ان وسائل سے بهرپور استفاده كرنے كيلئے مقابلوں ميں اضافہ ہوچكا ہے-

جس شخص نے سنا كہ ايكـ رسول اسلام نام مذهب ليكر آئے ہيں تو اس پر واجب ہو گيا كہ اگر وه استطاعت ركهتا ہو تو اسكى تحقيق كرے- اور اگر اس نےنہيں سنا يا سنا اور تحقيق نہيں كر سكا تو وه علماء كرام كى رائے كے مطابق معذور ہے.

دعوت كے لازم ہونے كيلئے علماء كرام نے يہ شرط لگائى ہے كہ جنكو دعوت پہنچے تو وه صحيح طريقے سے پہنچے غلط صورت ميں نہ پہنچے، اگر غلط صورت ميں پہنچے تو ايمان نہ لانے ميں وه معذور ہيں.

اور اسے امام غزالى نے اپنى كتاب"فيصل التفرقه" ميں بيان كيا ہيكہ انكے زمانے ميں اكثر رومى اور تركى عيسائى صرف دعوت كے نہ پہنچے كى وجہ سے نجات پانے والوں ميں سے ہيں- انہوں نے مزيد كہا كہ ميں تو يہ كہتا ہوں كہ وه لوگ جنهيں رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كى دعوت غير صحيح صورت ميں پہنچى ہے اور انكے خاندان والوں نے بچپن ہى سے رسول الله صلى الله عليہ وسلم كے بارے ميں غلط اور بے بنياد باتيں بتائيں وه بهى ميرے نزديكـ پہلى قسم كى طرح ہيں. يعنى ناجى ہيں.

اور وه تمام اقوام جنہوں نے اپنے تواتر علم كے باوجود آپ صلى الله عليہ وسلم كے ظہور صفات آپكے عقل كو خيره كرنے والے معجزات جن ميں سر فہرست قرآن كريم ہے كے بعد رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى معاذ الله تكذيب كى، آپ صلى الله عليہ وسلم سے روگردانى كى اور آپ صلى الله عليہ وسلم كى تعليمات ميں غور نہيں كيا تو يہ كافر ہيں.(اهـ ملخص)

اس بناپر يہ كہہ سكتے ہيں كہ جسے اسلام كى دعوت سرے سے پہنچى ہى نہيں يا غلط طريقے سے پہنچى يا صحيح طور پر دعوت پہنچى اور اس نے تلاش حق ميں كوتا ہى نہيں كى تو وه معذور ہے. يعنى اسكے لئے اميد كى جاتى ہے كہ وه ہميشہ جہنم ميں نہيں رہے گا([1]).

ڈاكٹر عبد الله الفقيه كى زيرنگرانى فتوى مركز(كى تحقيق كے مطابق):

كافر وه  شخص ہے جسكا انتقال اسلام كے علاوه كسى اور مذهب پر ہو جہاں تكـ  اس شخص كا تعلق ہے جس نے اسلام كے بارے ميں بالكل نہيں سنا. يا جنہيں اسلام كى دعوت غلط انداز اور غير صحيح طريقے سے پہنچى ہو.(انكے بارے ميں) صحيح بات تويہ ہيكہ روز قيامت انكا امتحان ليا جائے گا.

جيسا كہ فتوى نمبر 39860، 42857، 56323، 3191، 48406، ميں تفصيل سے اسكا بيان آچكا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ نے كہا: انبياء كرام كے درميانى زمانوں اور جگہوں ميں لوگوں كو تهوڑے اور ضعيف ايمان پر بهى ثواب ديا جائيگا. اور الله تعالى اس شخص كى مغفرت فرماتا ہے جس پر حجت قائم نہ ہوئى ہو. اور اسكو معاف نہيں فرماتا جس پر حجت قائم ہوئى ہو.

 

جيسا كہ مشہور حديث مباركہ ميں ہے.

لوگوں پر ايكـ ايسا زمانہ آئے گا جسميں وه نماز، روزے، حج، اور عمرے سے. صرف بڑى عمر كے اشخاص اور بوڑهے ہى واقف ہونگے اور وه كہيں گے هم نے اپنے اباء واجداد كو پايا جو يہ كہتے ہيں لا اله الا الله .                   

چنانچہ حذيفہ بن يمان سے كہا گيا كہ لا اله الا الله كہنے سے انكو كيا فائده حاصل ہوگا                تو آپ نے فرمايا كہ يہ انہيں عذاب سے نجات دلائے گا.([2]).                                                                    والله أعلم بالصواب.

ڈاكٹر محمد فؤاد


[1] فتاوى دار الافتاء المصريہ. الموضوع(31) المفتى فضيلة شيخ عطيہ صقر مايو 1997.

[2] فتوى مركز زيرنگرانى ڈاكٹر عبد الله الفقيه. فتوى نمبر 59524. كافر ہميشہ جہنمى تاريخ فتوى 21 محرم 1426هـ.