خلاصہ فتوی:
جواب دیا گیا کہ جائز نہیں ۔کیونکہ اس میں دھوکہ ،سود
،خرچ کی زیادتی اور يہ دکانداروں كے درمیان بغض وعناد
اور دشمنی کا سبب ہے۔
فتاوی
اللجنہ الدائمہ 14/13-16
تبصرہ:
ڈسکاؤنٹ کارڈ
خریدنے والا شخص اگر یہ جانتا ہو کہ جو اس نے کارڈ کی
قیمت ادا کی ہے اس سے عمومی طور پر خریداری کے مقابلہ
میں کارڈ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے تو شرعی
ممانعت نہ ہو نے کی وجہ سے کارڈ سے لین دین کرنا جائز
ہے ۔کیونکہ یہ ڈسکاؤنٹ ،یا کمی کرانے کے قائم مقام ہے۔
علمی رد:
اولا: ڈسکاؤنٹ
کارڈز جاری کرنا اور قبول کرنا شرعا جائز ہے بشرطیکہ
یہ بغیر عوض اور فری جاری کۓ جاتے ہوں ،کیونکہ یہ
عطیہ دینے کا وعدہ یا بيچنے والے يا ایجنٹ کی طرف سے
عطا کردہ تحفہ ہے۔
ثانیا: ڈسکاؤنٹ
کارڈ( شرعی ممانعت نہ ہونے کی وجہ سے) جاری کرنا اور
قبول کرنا جائز ہے جب ان کی قیمت کا عوض قطعی یا
سالانہ اشتراک ہو اور ان کارڈز کا خریدارا جانتا ہے کہ
جو اس نےکارڈ کی قیمت ادا کی ہے وہ عمومی طور پر
خریداری کی نسبت کارڈ سے ز یادہ فائدہ حاصل کرتا ہے
اور بیچنے والا اپنے سامان کی قیمت کم کرنے سے اسکی
اشاعت سے فائدہ حاصل کرتا ہےکیونکہ یہ قیمت ميں
ڈسکاؤنٹ یا کمی کرنے کی طرح ہے اور اس میں کسی قسم کا
دھوکہ فریب نہیں۔
ثالثا: مذکورہ
ڈسکاؤنٹ کارڈ جاری کرنا یا انہیں خریدنا جائز نہیں جب
انکی قیمت کا عوض قطعی ہو یا سالانہ اشتراک تو ہو مگر
خریدنے والے کو خریدنے کی عادت نہ ہو اور نہ ہی وہ
جانتا ہے کہ اس سے استفادہ کر سکے گا یا کہ نہیں ۔
کارڈ خریدنے والا مال دیتاہے اور وہ نہیں جانتا کہ
اسکے عوض اسے کیا حاصل ہو گا چنانچہ اس ميں دھوکہ
یقینی ہے اور اسکے مقابلے میں فائدے کی حصول میں
احتمال ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر
(دھوکہ سے خرید وفروخت سے) منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح
مسلم کی روایت کردو حدیث مبارکہ میں ہے۔
ڈاکٹر
سامی بن ابراہیم السویلم نے کہا:
مذکورہ کارڈ کو
ڈسکاؤنٹ کارڈ کا نام دیا جاتا ہے ۔اسکے حکم کے بارے
میں عصر حا ضر کے فقہاۓ کا اختلاف ہے۔
کسی کی راۓ میں یہ
ممنوع ہے کیونکہ یہ دھوکے اور جوۓ کی قسم ہے ۔کیو نکہ
مشترک کارڈ کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے معلوم نہیں
ہوتا کہ وہ اس سے فائدہ حاصل کریگا یا نہیں ، چنانچہ
وہ نفع اور نقصان میں متذ بذب ہوتا ہے۔
بعض دوسروں کے
خیال مین یہ جائز ہے اس وجہ سےکہ اشتراک کی قیمت
خریدار کو ڈسکاؤنٹ (کارڈ خریدنے) پر قائل کرنے اور
دکان پر کارڈ جاری کرنے والے کے ایجنٹ کا عوض ہے اور
یہی کام کی اجرت ہے ( دیکھۓ الحوافز التجاریۃ ،خلد
مصلح 179 ۔192۔ تفصیل اللہ تعالی بہتر جانتا ہے)۔
اور اس لۓ کہ شرعا
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آدمی دوسرے سے کہے اگر تم
فلاں دکان سے میرے لۓ ڈسکاؤنٹ لے آؤ تو تمہارے لۓ اتنا
ہے۔
امام احمد رحمہ
اللہ نے اس کے جائز ہونے کى وضاحت کی ہے کہ ایک آدمی
دوسرے سے کہے کہ میرے لئے تم فلاں سے سو (روپۓ) قرض
لاؤ تو دس تمہارے ہیں ( المغنی دار ھجر 6/1441۔
پس اگر قرض کے
حصول پر ا یجنٹ یا وکیل کا عوض جائز ہے تو يہ بدرجہ
اولی جائز ہے([1])۔
اللہ اعلم۔
ڈاکٹر انس ابو شادی
[1]
ڈاکٹر سامی بن ابراہیم باخت فی
الاقتصادالاسلامی ۔من کتاب فتاوی واشتسارات
الاسلام اليوم الجز نمبر 8 ص 464 ۔تارخ 14/13
۔1425ھ۔