خلاصہء فتوى:
اس پرعدم جواز کا فتویٰ دیا گیا کیونکہ اس صورت میںباپ
کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہونے کا عمل پایا جاتاہے
اور یہ عمل حرام ہے.
فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ
٢٠/٣٨٧
تبصرہ:
اگر
نام کی تبدیلی سے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسب کا
ثبوت پایا جائے تو البتہ یہ عمل ناجائز ہوگا اور اس پر
بڑی سخت وعید وارد ہے لیکن بیوی کے نام کے ساتھـ شوہر
کے نام کے اضافے سے والد سے یا خاندان سے رشتہ منقطع
نہیں ہوتا ہے بلکہ اس سے صرف رشتہء زوجیت کا اضافہ
مقصود ہے نہ کہ رشتہء نسب کی تبدیلی.
علمی رد:
دراصل نام کی تبدیلی ایک جائز امر ہے بشرطیکہ بہتر نام
کی جستجو میں ہو لیکن اگر نام کی تبدیلی سے نسب کی
تبدیلی لازم آئے یا باپ کے نسب کو چھوڑ کر کسی اور کی
طرف نسب جوڑا جائے تو البتہ یہ عمل ناجائز ہے.
چنانچہ امام
بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں حضرت نبی کریم صلى
الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا"
:إن
من أعظم الفرى أن يدعي الرجل إلى غير
أبيه"، ''بدترین جھوٹ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کوئی
شخص اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسب
جوڑے''واضح رہے کہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا یا اس
کے خاندان کے نام کا اضافہ کرنا اور باپ کے نام کوسرے
سے چھوڑدینا اسلامی عادتوں میں سے نہیں ہے بلکہ غیر
مسلموں کے طور و طریقے کا ایک جز ہے جو باہمی بودوباش
اور اختلاط سے مسلمانوں میں بھی منتقل ہوگئے. اللہ
تعالیٰ رشاد فرماتاہے:
﴿ادْعُوهُمْ
لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ
تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ
وَمَوَالِيكُمْ﴾([1])،
ترجمہ:
"تم
اُن (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے
پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر
تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے
بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ
ہے:﴿وَمَرْيَمَ
ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا
﴾ ([2])،
ترجمہ:
"اور
(دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریم کی (بیان فرمائی ہے)
جس نے اپنی عصمت و عفّت کی خوب حفاظت کی"۔
قابل ذکر بات یہ
ہے کہ حضرت نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی دین و دنیا
میں عظیم ترین قدرومنزلت کے باوجود آپ صلى الله عليه
وسلم کی ازواج مطہرات اپنے نسب کو چھوڑ کر آپ کی طرف
منسوب نہ ہوئیں چنانچہ عائشہ بنت ابو بکر، اور حفصہ
بنت عمر ، اور زینب بنت جحش ہی کہا جاتا رہااور اسی پر
بقیہ ازواج مطہرات کو بھی قیاس کرلیجئے.
لیکن اب اس
زمانے میں جو معروف ہے کہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا
نام جوڑدیا جاتا ہے تو واضح رہے کہ اس سے باپ کی یا ان
کے خاندانی نسبت کا انکارلازم نہیں آتا ہے، اور بیوی
کے نام کے ساتھ شوہر کے نام کے اضافے کی یوں بھی تشریح
ہوسکتی ہے کہ یہ نسبت ازدواجی ہے نہ کہ نسبی جیساکہ اس
آیت کریمہ میں ہے:
﴿ضَرَبَ
اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ
وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ﴾
([3])،ترجمہ:
"اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح
(علیہ السلام) کی عورت اور لوط (علیہ السلام) کی عورت
(واہلہ اور واعلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے"۔
اور اس کا مطلب
یہ ہوگا کہ فلانی عورت فلاں کی بیوی یا فلاں کی عورت
ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ باپ کو چھوڑکر
کسی اور سے نسب جوڑا گیا ہے لہذا اگر لوگوں کے درمیان
اس طرح کا کوئی رواج جڑپکڑجائے تو ممانعت کی کوئی بات
نہیں ہے لیکن نسب اور دفتری کاغذات میں باپ کی طرف ہی
نسبت کی جانی چاہئے اور فلانی بنت فلان جیسے الفاظ باپ
کے نام کے ساتھ اندراج ہونا چاہئے.
لیکن
یہاں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ شوہر کے نام کو شامل کرنے
کے ا س عمل میں غیر مسلموں سے ایک قسم کی مشابہت لازم
آتی ہے لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ صرف مشابہت سے کوئی
عمل حرام نہیں ہوتا ہے بلکہ حرام تو اس وقت ہوگا جبکہ
بالقصد مشابہت کا ارادہ کیا گیا ہو لہذا اگر غیر
مسلموں سے مشابہت کا ارادہ کیا گیا ہو تو البتہ یہ عمل
حرام ہوگا ورنہ نہیں.
۔اللہ
اعلم.
ڈاکٹر انس ابو شادى