خلاصہ
فتوی: جواب دیا گیا کہ
یہ (عدل) واجب ہے اور اولاد میں سے بعض کو بعض پر
فضیلت دینا، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی
حدیث کی وجہ سے حرام ہے ۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا (لا تشہدنی علی جور ان لبنیک علیک من
الحق ان تعدل بینہم) تم مجھے ظلم و جور پر گواہ مت
بناؤ تم پر تمہاری اولاد کے حقوق میں سے ہے کہ تم انکے
درمیان عدل کرو۔
فتاوی اللجنہ الدائمہ 16 /192
-194
تبصرہ:
جمہور علماء کے
نزدیک پورا مال یا کچھـ مال دینے میں اولاد ميں سے
کسی کو فضیلت دینا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے اور اگر اس
تخصیص کا کوئی سبب ہو تو مکروہ بھی نہیں ہے ۔
علمی رد:
چاروں مذاہب کے
فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام مال یا اس کا کچھـ
حصہ دینے میں اولاد کو ایک دوسرے پر فضیلت یا تر جیح
دینا یا خاص کرنا مکروہ ہے۔
جبکہ اس تخصیص یا
تر جیح کے حرام ہونے میں ان کا ا ختلاف ہے ۔
پھر اس
میں ان کا اختلاف ہے کہ کیا تخصیص کرنا یا ترجیح دینا
حرام ہے؟
تو امام ابو حنیفہ
اور امام شافعی کی راۓ کے مطابق یہ حرام نہیں ہے اور
امام مالک کے نزدیک آدمی کا اپنے مال میں کچھ مال
اپنی بعض اولاد کو دینا جائز ہے۔
اور امام احمد بن
حنبل کی راۓ میں اولاد میں کسی کو دوسرے پر فضیلت یا
ترجیح دینا یا اسکی تخصیص کرنا جائز نہیں اور جس نے
ایسا کیا تو اس نے برا کیا۔
اور عمل فتوی کس
لۓ جمہور علماء قول مختار ہے/پسندیدہ ہے بشرطیکہ مال
کے لۓ اولاد میں سے بعض کو خاص کرنے کا کوئی سبب ہو
اور حنبلی فقہاء نے بھی یہی کہا ہے جیسا ابن قدامہ کی
کتاب المغنی میں ھبہ کے باب میں آیا ہے ۔
اگر اس نے ان (انہی
اولاد)سے بعض کو کسی ضرورت اور اجازت یا حاجت یا دائمی
مرض یک اندھا ہونے یا اسکی اولاد زیادہ ہونے یاعلم
وغینہ میں مصروف ہونے یا ایسے ہی فضائل کی وجہ سے خاص
کیا تو جائز ہے اسی طرح اگر اسنے انہی بعض اولاد کو
عطیہ دیا اور کسی کو اسکی نا فرمانی یا بدعت یا یہ کہ
جو چیز وہ اس سے لیتا ہے یہ اللہ تعالی کی نافرمانی
میڑ معاونت ہونے یا اسے والدین کی نافرمانی کی وجہ سے
نہ دیا/محروم رکھا تو اس لۓ جائز ہے۔اللہ اعلم([1])۔
ڈاکٹر
انس ابو شادی
[1]
فتاوی دارالافتاء المصریہ ۔موضوع(1063)مفتی
فضیلت الشیخ حسن مامون 14 ذوالقعدہ1377 ھ۔