اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> بیٹوں میں کسی ایک کو اس کے دوسرے بھائیوں پر فوقیت دینے کا حكم  

سوال : عطيہ كرنے میں بعض بیٹوں كودوسروں پر فوقیت دینے کے متعلق سوال كيا گیا.  

خلاصہ فتوى: جواب ديا گيا کہ  جائز نہيں، سوائے اسكے كہ باقی سب اس سے راضی ہوں،یا پھر جن کو دیا جارہاہے وہ کمانے سے لاچار ہو.                                                         

                                             الشیخ ابن باز فتاوی المرأۃ ص٢٠٥
                                             الشیخ یاسر برھامی
www.alsalafway.com

تبصرہ:   

عطيہ میں اولاد کے درمیان امتیاز برتنا مکروہ ہے، لیکن اگر کسی معقول سبب کے پیش نظر ہو تو بلا کراہت جائز ہے.

علمی رد: 

امام مسلم ،ابو داود اور امام احمد نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے بشیر نامی صحابی کی اھلیہ نے اپنے شوہر سے کہا میرے بیٹے کو ایک غلام دیجئے اور حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس پر گواہ بنا لیجئے، چنانچہ وہ حضرت رسول اللہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کی فلاں کی دختر نے( یعنی میری اہلیہ نے اور ان کا نام بھی ذکر کیا) اپنے بیٹے کو غلام دینے کا مطالبہ کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کیا ان کے بھائی بھی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا تو کیا ان میں سے ہر ایک کو ان کے برابر دیا؟ انہوں نے عرض کیا جی نہیں، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: "فليس يصلح هذا،لا أشهد إلا على حق"، "تو ایسا تو مناسب نہیں ہے، اور میں تو صرف حق بات پر ہی گواہ بن سکتاہوں.
جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب یہ بات بھی اچھی طرح یاد رہے کہ چاروں مذاہب کے فقہائے کرام کا امتیاز برتنے،يا فوقیت دینے اور لین دین میں کمی بیشی کرنے کے عمل کی کراہیت پر اتفاق ہے لیکن اس بارے میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کمی بیشی یا امتیاز برتنے کا یہ عمل حرام بھی ہے یا نہیں؟

امام ابو حنیفۃ اور امام شافعی کی رائے میں یہ عمل حرام نہیں ہے، جبکہ امام مالک فرماتے ہیں اپنی اولاد میں  ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا درست ہے، اور امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں اپنی اولاد میں ایک کو دینا اور دوسرے کو مطلقاًنہ دینا،یاکمی بیشی کرنایاامتیاز برتنا درست نہیں ہے، اور جس نے ایسا عمل کیا اس نے حقیقت میں ناانصافی کی.
ان میں امام ابو حنیفۃ اور امام شافعی کا ہی قول راجح ہے بشرطیکہ کمی بیشی یا دینے اور نہ دینے کے لئے معقول وجہ ہو.

واضح رہے کہ حنبلی مذہب کے بعض فقہائے کرام سے بھی ایسا قول وارد ہے. چنانچہ ابن قدامہ کی''المغنی '' نامی کتاب ميں ھبہ کی بحث کے ضمن میں آیا ہے وہ فرماتے ہیں اگر کسی اولاد کو کسی معقول سبب کے پیش نظر دیتا ہوجیسے شدید ضرورت مند ہے یا لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے یا نابینا ہے یا زیادہ اہل وعیال والا ہے یا تحصیل علم وغیرہ جیسے نیک کاموں میں مشغول ہے تو ایسا عمل جائز ہے،اسی طرح اگر کسی اولادکو دیتا ہے اور کسی کو محروم رکھتا ہے لیکن محروم رکھنے کے پیچھے معقول حکمت ہو جیسے حکم الہی سے روگرداں ہو یا بد دین ہو یا اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں بہاتا ہو توبھی ایسا عمل جائز ہے. اور اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے([1])
اور ڈاکٹر عبد اللہ الفقیہ کی زیر نگرانی چلنے والا فتویٰ سینٹر کے فتاویٰ میں آیا ہے: بعض اہل علم نے اس حدیث (یعنی نعمان بن بشیر کی روایت)سے اولاد کے درمیان انصاف و برابری کے وجوب پر استدلال کیا ہے، اور اگر کوئی عمل اس کے خلاف واقع ہو تو وہ عمل باطل ہے
اور یہی قول علامہ اسحاق اور امام ثوری کا بھی ہے اور امام بخاری نے بھی اسی کی صراحت کی ہے اوریہی رائے امام احمد ابن حنبل کی بھی ہے. ليكن دیگر حضرات  کا مذہب یہ ہے کہ اولاد کے درمیان برابری کرنا ایک مستحب امر ہے اور اس بارے میں وارداحادیث کو استحباب پر محمول کیا ہے اسی طرح امام مسلم کی روایت میں وارد ممانعت کو بھی مکروہ تنزیہی پر محمول کیا ہے جس میں یہ الفاظ آئے ہیں ''کیا تمہاری خواہش یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک میں یکساں رہیں اس نے عرض کیا جی ہاں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تب تو نہیں''.

لہذا جمہور کے مذہب کے مطابق جس نے ہوش و حواس اور صحت کی حالت میں اپنی خواہش ومرضی سے اپنی اولاد میں سے کسی کو کچھ د یا يا دینے میں کمی یا بیشی کا معاملہ کیا تو اس کا تصرف نافذ ہے اور باقی وارثین کو اعتراض کا کوئی حق نہیں، اورمحمد بن الحکم اور میمونی کی روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی موقف ہے اور یہی امام مالک اور امام شافعی اور اصحاب قیاس اور اکثر اہل علم کا مذہب ہے. والله أعلم.([2])                                      

                                                                    ڈاكٹرانس ابو شادی


[1] فتاوی دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر(١٠٦٣)،(١٢٨٥)المفتی: فضیلۃ الشیخ حسن مامون، فضیلۃالشیخ جاد الحق علی جاد الحق.

[2] فتوی سینٹر زیر نگرانی د/ عبد اللہ الفقیہ،فتوی نمبر ٥٣٤٨ مؤرخہ ٢٦ شعبان ١٤٢٢ھ۔