سوال :
خواتین کے پتلون پہننے کے بارے میں حکم دریافت کیا گیا ہے۔
خلاصۂ
فتوی :
خواتین
کا پتلون (پینٹ ) پہننا جائز نہیں اگرچہ کشادہ اور
ڈھیلی ڈھالی ہی کیوں نہ ہو ۔
الشيخ
ابن عثيمين ۔ کتاب الدعوہ 1/1476
تبصرہ:
مرد یا
عورت کا لباس عام طور پر ان امور میں سے ہے جو عرف ،
زمان ، مکان اور اس کا استعمال کسی مصلحت کے حصول یا
ضرر سے بچنے کے تابع ہوتا ہے ۔یہ اصل میں مباح ہے جب
تک شريعت کے اعتبار سے ممنوع نہ ہو ۔
علمی
رد:
مرد یا
عورت کا لباس عام طور پر ان امور میں سے ہے جو ہر قوم
اور خاندان میں وقت اور جگہ کے اعتبار سے متعارف، نیز
اس کے استعمال سے کسی مصلحت کا حصول یا ضرر سے بچنا
مقصود ہوتا ہے ۔ یہ ان امور میں سے نہیں جو عبادت کے
لیے ضروری ہوتے ہیں حتی کہ ان کو پہننے والا کسی خاص
بھیس کا پابند ہو ( جیسا کہ حج اور عمرہ کے لیے احرام
) ۔ لباس اصل میں مباح چیزوں میں سے ہے اس کے لیے کوئی
ممانعت نہیں اور نص شرعی سے ( کوئی خاص فیشن ) ممنوع
نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اخلاقی طور پر شرعااس سے دور رہنے
کا کوئی قریبی تعلق ہو یا شرعا حرمت کا تعلق ہو۔ اگر
حرمت کے لیے شرعی نص پائی جاتی ہو تو حرام ہو گا ،
جیسا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ۔ اور
اگر لباس کسی ایسی چیز کے ساتھ ملا ہوا ہو جو شرعا
حرام ہو مثلا ایسا لباس پہننا جس سے تفاخر اور اتراہٹ
کا اظہار ہوتا ہو یا عورت کا ایسا لباس زیب تن کر نا
جس سے نسوانیت ظاہر ہوتی ہو یا ایسافیشن جس سے کسی سے
مشابہت کا اظہار کیا جاۓ ۔ مثال کے طور پر کافروں کے
کسی خاص روپ کا انداز اختیار کرنا ، تو یہ شرعا جائز
نہیں ۔لباس کی نوعیت کی وجہ سے نہیں بلکہ جب یہ ممنوعہ
معانی کا اظہار کرتا ہو ۔ کبھی یہ انداز حرام اور کبھی
مکروہ ہوتا ہے ۔یہ ممانعت معانی سے تعلق کی مقدار سے
ہوگی ۔ اس اعتبار سے:
1 ۔
مردوں یا عورتوں کا برطانوی یا لایبریا کا لباس پہننا
اس سے اپنی قوم میں رائج عادت کے سوا کوئی ارادہ نہ ہو
یا مقصد اپنے جسم کو راحت پہنچانا ہو ، جیسے کڑی دھوپ
سے بچاؤ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا نیک مقصد ہو تو اس
میں کوئی حرج نہیں، بلکہ کسی مصلحت کے حصول اور ضرر سے
بچنے کی نیت سے ایسا کرنا اچھا ہوگا ۔
2 ۔
جہاں تک کوٹ ، پتلون ، پجامہ ، ویسٹ کوٹ اور ترکی ٹوپی
کا تعلق ہے تو یہ قومی لباس بن چکا ہے ۔ خواتین و
حضرات کے اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں جب تک یہ
مذکورہ بنیاد کے لحاظ سے شرعا ممنوع نہ ہو ۔ ([1])
واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔
ڈاکٹر
یا سر عبدالعظیم
[1]
زیر موضوع ، فتاوی مصری دارالافتاء ( 1057
) ، مفتی شیخ علام نصار ، 5 ذیقعدہ 1369 ھ ،
19 اگست 1950 ء۔