فتوے اظھار کريں
س :
ميري شادي ايک امريکي لڑکي سے ہوئي تہي، ليکن بعد ميں بہت زيادہ اختلاف اور جھگڑے کي وجہ سے دس سال کے بعد ہم دونوں ميں طلاق ہوگئي، ميں نے بچوں کو بہي اس کي خواہش کے مطابق اسي کے حوالہ کر ديا، اب مجہ کو خبر ملي ہے کہ ميري انيس سال کي بيٹي کا تعلق ايک امريکي غير مسلم نوجوان کے ساتھ ہو گيا ہے، تو کيا مجھ کو اس کا گناہ ہوگا؟
|
ج :
دين اسلام ميں افضليت تقوی سے ہے نہ کہ جنسيت اور شہريت سے، اگر ان بچوں کي ماں اس لائق تھي کہ وہ اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريگي، اور تم اس پر مطمئن تھے تو تم کو کوئي گناہ نہيں ہے، ليکن اب وہ ايسي نہيں ہے اور وہ ديني تعليم وتربيت پر زيادہ توجہ نہيں ديتي، تو تمھارے لئے جائز نہيں ہے کہ تم اپني اولاد کو اس سے زيادہ اس کے پاس چہوڑے رھو، اب جو بہي بن پڑے ان بچوں کو ان کے چنگل سے چھڑا لانے کي کوشش کرو، ايسا کرنا تم پر ضروري ہے، اس لئے کہ تم ان کے باپ ہو اور ان کے ذمہ دار بہي تم ہو، اس لئے کہ رسول ﷺ نے فرمايا کہ: "انسان کے گناہ کے لئے اتنا کافي ہے کہ جو اس سے ضائع ہو رہا ہے اس کو وہ ضائع ہوتا چہوڑ دے". تم پر ضروري ہے کہ تم ان کو اسلامي تعليمات اور اس کے اصول ومبادي کو بتاتے رہو، اور چونکہ وہ اپني والدہ کي غلط تربيت کي وجہ سے بہک گئے ہيں اس پر ان کو تنبيہ کرتے رہو.
ڈاکٹر محمود خيامى
|
.... دوسروں کے |
|
|

عندك سؤال فى الدين؟
خدمة الهاتف الإسلامي ترفع الحرج والحيرة عن أي مسلم وتوفر له الإجابة القاطعة عن أي سؤال أو إستفسار ديني، من خلال أرقام الخدمة التليفونية أو الموقع الإلكترونى.
Share with
Others
Share Islamic Hotline with your
friends, family and colleagues
|